کردار سازی

کیا ہم ہمیشہ سفید ہی رہتے ہیں؟

ہم جب بھی اپنے بارے میں سوچتے ہیں تو سب سے پہلے کیا سوچتے ہیں کبھی سوچا ہے ؟ نہیں سوچا ہوگا کیونکہ ہم کبھی اپنے بارے میں اتنا نہیں سوچتے جتنا دوسروں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ لیکن کبھی سوچیں بھی تو کوئی داغدار سوچ تو آتی ہی نہیں ہوگی کیونکہ ہم تو صاف ستھرے ہیں۔ ہم میں کوئی داغ تھوڑی ہیں۔ داغ تو دوسروں میں ہیں۔

ہم دوسروں میں داغ نکالنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ کبھی سفید کپڑے پہنے ہیں کتنے اجلے نظر آتے ہیں پہلی نظر میں۔ اور جس نے پہنے ہوں اس کی سج دھج ہی الگ ہوتی ہے لیکن اگر اسی کپڑے پر داغ لگ جائے تو وہی کپڑے جو تھوڑی دیر پہلے تک جچ رہے تھے اب نظروں کو برے لگ رہے ہوتے ہیں۔۔

ہم دوسروں کو بھی وہ سفید کپڑا سمجھ لیتے ہیں جس پر ایک نقطہ بھی کسی رنگ کا لگ جائے تو بہت نمایاں نظر آتا ہے لیکن ہم خود کو کالی چادر پہنا لیتے ہیں جو جگہ جگہ سے داغدار ہونے کے باوجود صاف دکھائی دیتی ہے۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے اندر ضرور جھانک لیں۔ کہیں آپ کے اندر کی سفیدی داغدار تو نہیں۔ کہیں جو آپ دوسروں کو داغدار کر رہے ہیں وہ سب آپ اپنے اندر تو نہیں سمو کر بیٹھے۔

ایسے ہی ہماری ذات ہے اگر ہمیں اپنی ذات میں داغ نظر آجائیں تو ہم دوسروں کی نظر میں برے بن جاتے ہیں۔

اسی لیے ہم اپنے آپ کو سنوار کر رکھتے ہیں کہ ہمارے داغ دنیا کو نظر نہ آئیں لیکن ہم اندر سے کتنے داغدار ہیں یہ صرف ہم جانتے ہیں یا ہمارا رب جانتا ہے ۔ اپنے اندر کی داغدار سفیدی کو چمکائیں۔ اسے اندر سے بھی سفید کریں جیسے آپ باہر سے سفید نظر آنا چاہتے ہیں۔

4.2/5 - (5 votes)

نوشابہ منیر

اس تحریر کی مصنفہ ہاؤس وائف ہونے کے ساتھ ساتھ لیڈیز موٹیویشنل اسپیکر بھی ہیں۔ اسی حوالے سے وہ لڑکیوں کی آن لائن کونسلنگ کے ذریعے رہنمائی کرتی ہیں۔ چونکہ خود مثبت سوچ و عمل کو پسند کرتے ہوے پر امید رہتی ہیں اسی لیے دوسروں تک بھی یہی پیغام پہچانا چاہتی ہیں۔