بی بی اے کرنے کے بعد وقاص بہت سی کمپنیز میں نوکری کے لئے اپلائی کر چکا تھا مگر ہر طرف سے اُسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ایم بی اے کرنا اُس کا خواب تھا لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ اُس کی خالی جیب تھی۔ اب تک اُس کی پڑھائی کا خرچ اُس کے بابا کی پنشن سے پورا ہوتا آیا تھا لیکن تین مہینے قبل اُس کے بابا کی وفات ہو چکی تھی۔ ماں کو بھی فوت ہوئے عرصہ گزر چکا تھا۔ ایک بڑا بھائی تھا جس کی کمائی اُس کے اپنے بیوی بچوں کے لئے ہی بمشکل پوری ہوتی تھی۔ ایسے میں وقاص کی تعلیم کے اخراجات اٹھا پانا اُن کے بس کی بات نہیں تھی۔ خود وقاص کو بھی اس بات کا احساس تھا اس لیے وہ اُن پر کوئی بوجھ ڈالنے کے بجائے خود نوکری کی تلاش میں تھا۔ ان تین مہینوں میں دو تین بار اُس کی بھابھی بھی واضح الفاظ میں اُسے کوئی کام ڈھونڈنے کی تلقین کر چکی تھیں۔
سنہرے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے وہ ہر بار نئے جوش کے ساتھ انٹرویو دینے جاتا لیکن ناکامی ہر جگہ منہ چڑاتی نظر آتی۔ اسی تلاش میں تقریباً دو مہینے مزید گزر گئے مگر اپنے بہترین تعلیمی ریکارڈ کے باوجود وہ کوئی مناسب نوکری تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ وجہ یہ تھی اُس کے پاس نہ کوئی سفارش تھی اور نہ ہی رشوت۔ دن بھر اپنے ڈاکومنٹس کی فائل لیے کبھی ایک دفتر جاتا تو کبھی دوسرے، لیکن قسمت کسی بھی جگہ ساتھ نہ دیتی۔ ایک ایک کر کے اُس کے سبھی سنہرے خواب ناکامی کی گرد سے اٹتے چلے گئے۔ اُمید کی ڈور ٹوٹنے لگی لیکن اُس نے ہمت نہ ہاری اور اپنی تلاش جاری رکھی۔ بالآخر تھک ہار کر اُس نے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کے شایانِ شان نوکری نہ ملنے پر ایک شاپنگ مال میں معمولی تنخواہ پر بطورِ سیلز مین کام کرنا شروع کیا۔ لیکن قسمت نے یہاں بھی اُس کا ساتھ نہ دیا۔ پہلے دو چار دن تو ٹھیک سے گزرے لیکن پھر منیجر اور گراہکوں کا توہین آمیز رویہ اُس کے لئے ناقابلِ برداشت ہوتا گیا۔ غلطی نہ ہونے کے باوجود ہر روز کی بے عزتی برداشت کرنا اُس کی عزت نفس کو مجروح کرتا تھا۔ اس لیے محض پندرہ دن بعد ہی اُس نے مال کی ملازمت چھوڑ دی اور ایک بار پھر زیرو پوائنٹ پر آن کھڑا ہوا۔
بڑے بھائی کے مشورے پر اُس نے ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور بنانے کا فیصلہ کیا۔ سرکاری بینک سے کاروباری قرض سکیم کی مد میں دو لاکھ روپے قرض لیا اور ایک مناسب جگہ پر دکان کرائے پر لے کر رنگ و روغن اور لکڑی کا ضروری کام کروا کے سامان ڈلوایا اور خدا کا نام لے کر بہتری کی اُمید لیے اسٹور کا افتتاح کیا۔
ایک مہینے تک تو اسٹور کی کمائی سے نفع نہ ہونے کے برابر رہا۔ جو کچھ تھوڑی بہت سیل ہوتی، کبھی گھر میں اور کبھی اُس کی ذاتی ضروریات پر خرچ ہو جاتی۔ مہینے بھر بعد اسٹور میں دوبارہ سامان ڈلوانے کے لیے اُسے ایک بار پھر قرض لینا پڑا۔ ایک کے بعد ایک قرض بڑھتا چلا گیا جبکہ آمدنی اور نفع کچھ خاص نہ تھا۔ اسی طرح پانچ مہینے گزر گئے۔ دکان کا کرایہ الگ، بینک کا قرض الگ اور دکان کے سامان کے لیے دوستوں سے لیا گیا قرض الگ، کُل ملا کے وہ تقریباً چار ساڑھے چار لاکھ روپے کا مقروض ہو چکا تھا۔ اس صورتِ حال میں دکان چھوڑنے کے علاوہ اُس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ سارا سامان بیچنے کے بعد اُس نے دوستوں سے لیا گیا اُدھار اور دکان کا کچھ کرایہ ادا کر دیا، لیکن بینک سے لیا گیا قرض جوں کا توں ہی رہا۔
ہر بار کی مسلسل ناکامی سے دلبرداشتہ ہو کر آخرکار وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گھر بیٹھ گیا۔ لیکن آخر کب تک بیٹھ سکتا تھا۔ گھر کے حالات دیکھ کر مجبوراً اُسے ایک بار پھر کام کی تلاش میں نکلنا پڑا۔ پچھلے تجربات سے اُسے اتنا تو اندازہ ہو ہی چکا تھا کہ پیسہ کمانا آسان نہیں ہے۔ بہت سی ہمت، محنت اور بہت زیادہ صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس بار وہ کچھ الگ کرنا چاہتا تھا۔ کچھ ایسا، جس میں اگر وہ ناکام بھی ہو جائے اور آخر میں اگر نفع نہ بھی ہو تو نقصان بھی نہ ہو۔ اُس نے سوچا کہ وہ کس چیز میں سب سے اچھا ہے؟ دماغ نے فوراً جواب دیا "بزنس”۔ لیکن اپنا بزنس شروع کرنے کے لیے اُس کے پاس سرمایہ نہیں تھا۔ "تو پھر کیا تھا اُس کے پاس؟” ایک بار پھر اُس نے خود سے پوچھا تو دماغ نے یک لفظی جواب دیا، "آئیڈیاز”۔ سرمایہ نہیں تھا تو کیا ہوا، اُس کے پاس آئیڈیاز تھے اور وہ اپنے آئیڈیاز بیچ سکتا تھا۔ اچھی طرح سوچ بچار کرنے کے بعد اُس نے ایک یوٹیوب چینل بنایا اور بزنس میں ترقی کرنے کے نت نئے آئیڈیاز ویڈیو لیکچرز کی صورت میں ریکارڈ کر کے اپلوڈ کرنا شروع کیے۔
حیرت انگیز طور پر محض چند دنوں میں ہی اُس کے ویڈیو لیکچرز پر کئی ملین ویوز ملنے لگے۔ نا صرف اپنے ملک سے بلکہ بیرونی ممالک سے بھی بڑے بڑے بزنس مین اپنے بزنس کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے اُس سے رابطہ کرنے لگے۔ اور اُس کے ذہین اور زرخیز ذہن سے نکلے آئیڈیاز واقعی کام کرنے لگے۔ ڈوبتے ہوئے بزنس کو بچانا ہوتا یا ایک دم نئے سرے سے کوئی بزنس شروع کرنا ہوتا، ہر مسئلے کے لیے اُس کے پاس مؤثر حل موجود ہوتا تھا۔ کچھ عرصے میں ہی وہ ایک کامیاب بزنس ایڈوائزر بن چکا تھا۔ یوٹیوب پر اُس کے ویڈیو لیکچرز ٹاپ ریٹنگ لسٹ میں شامل ہوتے جس کا اچھا خاصا معاوضہ یوٹیوب کی جانب سے بھی ملتا اور دنیا بھر کی بڑی بڑی بزنس کمپنیز سے بھی وہ اپنے آئیڈیاز بیچ کر خاصی معقول رقم کما لیتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُس کے دن پھرتے چلے گئے۔ کئی کمپنیز کی طرف سے اُسے نوکری کی پیشکش بھی ہو چکی تھی لیکن اب وہ کسی ایک کمپنی تک محدود ہو کر نہیں رہنا چاہتا تھا۔
اسی طریقے سے مختلف کمپنیز کے ساتھ کام کر کے وہ بزنس کی دنیا میں اپنا ایک مقام اور پہچان بنانا چاہتا تھا۔ اب وہ اس مقام پہ پہنچ چکا تھا کہ اپنا ایم بی اے کرنے کا خواب آرام سے پورا کر سکتا تھا۔ ایک دن یونہی بیٹھ کے اپنے گزرے وقت کو یاد کرتے ہوئے وہ سوچنے لگا کہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے اُسے کیسے کیسے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ کن کن مشکلات سے گزرنا پڑا۔ لیکن یہ سب بھی اُس کی اپنی غلطی کی وجہ سے ہوا۔ وہ ایسی چیزوں اور ایسی جگہوں پر اپنا وقت، پیسہ اور محنت ضائع کرتا رہا جو اُس کی تعلیم اور اُس کی صلاحیتوں کے مطابق نہ تھیں۔
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ہم اپنی صلاحیتیں، اپنی محنت اور اپنا وقت غلط جگہ لگا کر بہترین نتائج کی توقع رکھیں تو یہ حماقت ہے۔ سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ آپ کیا کر سکتے ہیں۔ اور جب جان لیں تو اُس کام میں اپنا سو فیصد لگا دیں۔ کامیابی عنقریب آپ کے قدم چومے گی۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔