رہنمائی

بے روزگاری کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

بے روزگاری  کو سمجھنے سے پہلے اس کی تعریف پر غور کرتے ہیں۔ ‘ذریعہ معاش کا کوئی سبب نہ ہونا بے روزگاری  ہے’۔لیکن ذریعہ معاش کا کوئی سبب تلاش نہ کرنا،ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنا یہ بے روزگاری  نہیں بلکہ  کاہلی ہے یا ہڈ حرامی ہے۔اردگرد غوروفکر کے بعد جو میں نے محسوس کیا ہے وہ یہ ہے کہ نوے فیصد لوگ بیروزگار نہیں ہڈ حرام ہیں۔قناعت پسند نہیں ہیں  اور پھر زیادہ کا لالچ تھوڑے رزق کو بھی گنوا دیتا ہے۔جو محنت دوست ہوتا ہے اس کے حالات جیسے بھی ہوں اس کو فاقوں کی نوبت نہیں آتی ۔بھوکا وہ مرتا ہے جو جھوٹی انا کے بوجھ تلے دبا ہوتا ہے معمولی کام کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔ایک ریڑھی لگانے والا،کاٹھ کباڑ اکھٹا کرنے والا،کوڑا اٹھانے والا،چھوٹی موٹی چیزیں بیچنے والا ان سب کو دیکھ لیں دو وقت کی روٹی کما ہی لیتے ہیں۔

ہماری نوجوان نسل کا بڑا مسئلہ   واقعی ہی بے روزگاری  ہے لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ  معمولی کام کو حقیر سمجھنا،صفر سے سٹارٹ نہ کرنا،محنت نہ کرناہے۔کم تنخواہ کو لات مارنا،خود کو بہت قابل سمجھنا اور کھلی آنکھوں سے بڑے خواب دیکھنا ہے ۔میں یہ بات اللہ رب العزت کی قسم کھا کر کہنے کو تیار ہوں جو محنتی نہیں ہے وہ بے روزگاری  کا رونا روتا رہے گا،مہنگائی مہنگائی پکارتا رہے گا۔محنت بے روزگاری  کی ضد ہے جب محنت آتی ہے بے روزگاری  چلی جاتی ہے۔

اب یہ تو طے ہے کہ محنت سے بے روزگاری  کا خاتمہ ممکن ہے لیکن محنت کریں کیسے،اپنی صلاحیتوں کی پہچان کیسے ہو،کون سا کام کریں،کہاں سے شروع کریں آئیے اس بارے ذرا گہرائی سے جانتے ہیں۔

تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان کیا کر سکتے؟

جو بچے تعلیمی دور میں ہی اپنا خرچ خود اٹھانے کے قابل ہو جاتے ہیں ،وہ ہی آگے چل کر بڑے بزنس مین بنتے ہیں ۔بزنس مین نہ بھی بنیں تو معاشرے میں ایک عزت دار شخص ضرور بن جاتے ہیں کیوں کہ جس کی جیب بھری ہو وہ نہ صرف خود اچھا کھا،پی سکتا ہے  بلکہ دوسروں کی مدد بھی کر سکتا ہے ۔ جب خود کے پاس کچھ نہ ہو تو لاکھ جذبہ رکھتے ہوے بھی کسی غریب کو کچھ نہیں دیا جا سکتا۔انٹر سے ماسٹر تک کے لڑکوں کو چھٹیوں کے فارغ اوقات میں یا تعلیم کے ساتھ ساتھ ہی کمپیوٹر کی اسکل سیکھنی چاہیے،گرافک ڈیزائننگ،ویڈیو ایڈیٹنگ،ایمازون ورچوئل اسسٹنٹ اور سپوکن انگلش اس طرح کے کورسز کر کے فری لانسنگ کی طرف آنا چاہیے۔ اگر دلچسپی نہیں ہے تو ٹیویشن سنٹر کھول لیں،والد کی دوکان پے بیٹھیں کاروبار کی سوجھ بوجھ لیں،زراعت کا کام ہے تو ساتھ مدد کروائیں،جن کی زمینیں نہیں ہیں وہ سیکنڈ ٹائم کسی دوکان پے سیلز مینی کر لیں رات کو تکے برگر کا سٹال لگا لیں یا اپنی پسند کا کوئی کام کر لیں اس سے اپنے خرچے کے لیے آمدن ہو ہی جائے گی ہو سکتا ہے گھر والوں کے لیے بھی کچھ بچ جائے۔

  بے روزگاری میں یہ چار کام کیجیے

جو لڑکیاں ہیں وہ سلائی سیکھیں ۔دو گھنٹے میں سوٹ سلائی ہو جاتا ہے اور نارمل سلائی پانچ سو سے ہزار تک ہے۔کالج سے گھر آ کر سکون سے ایک سوٹ سی سکتی ہیں۔اگر گھر والے اجازت دیں تو کمپیوٹر اور دیگر کورسز کر کے فری لانسنگ کی طرف آئیں،ٹیویشن سنٹر کھول لیں، خواتین کے لیے مجھے سب سے بہتر کام وہ لگتا ہے جو گھر بیٹھ کے کیا جائے اس سے بہت ذہنی سکون ملتا ہے باہر کی زلت سے انسان بچ جاتا ہے۔اگر فنانشلی کوئی مسئلہ  نہیں ہے تو دنیا کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم حاصل کریں قرآن پاک ترجمہ و تجوید کے ساتھ پڑھیں۔گھر داری سیکھیں،والدہ کا ہاتھ بٹائیں۔

تعلیم مکمل کرلینے والے نوجوان کیا  کرسکتے؟

چونکہ اب اپنی اصل محنت کا ثمر پانے کا موقع آیا ہے تو لڑکے اپنی فیلڈ کے مطابق نوکری تلاش کریں  اور اگر  نہیں مل رہی تو خود کا بزنس کریں ۔جو کام کرنے کا دل ہے پہلے اس میں مہارت حاصل کریں پھر انویسٹ کریں ۔اگر گارمنٹس کا کام کرنے کا ارادہ ہے تو پہلے کچھ عرصہ مارکیٹ میں کسی کے ساتھ بطور سیلز مین کام کریں،گاہک کو کیسے ڈیل کرنا ہے،ریٹ کیا رکھنا،مال کہاں سے حاصل کرنا،بچت وغیرہ اس کا تجربہ حاصل کریں پھر اپنا کام شروع کریں۔ایسے ہی ہر کام شروع کرنے سے پہلے اس کی فیلڈ کے لوگوں سے تجربہ حاصل کریں پھر سارے نفع و نقصان کا تعین کر کے کام کریں ورنہ سرمایہ ڈوب سکتا ہے۔

جن لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم ہے میڈیکل، انجینیرنگ یا کامرس وغیرہ وہ تو اپنے شعبے میں کام کریں لیکچرار بننا ہے تو اس کا طریقہ بھی سب کو معلوم ہے۔ کیسے ٹیسٹ دے کر نوکری  حاصل کی جاتی ہے گورنمنٹ نہ بھی ملے تو پرائیویٹ سینکڑوں ادارے ہیں۔اگر گھر والے نوکری  نہیں کروانا چاہتے تو کوئی بات نہیں اپنے گھر پر  توجہ دیں ۔بچوں کا ٹیویشن سنٹر کھول لیں یا پھر گھر داری سیکھیں اور اپنی شادی کی تیاری کریں۔نوکری کرنا اہم نہیں ہے ۔اللہ پاک نے آپ کی چوبیس گھنٹے کی گھر کی جاب لگا دی ہے  جس میں کوئی چھٹی بھی نہیں ہے۔یہ بات آپ کو شادی اور بچوں کے بعد سمجھ آ جائے گی ،جب آپ کے پاس صبح سے کے کر شام تک اپنے لیے بھی وقت نہیں نکلے گا اس وقت آپ حیران ہوں گی کہ جاب والیاں گھر کیسے مینج کرتی ہیں ۔خاک مینج کرتی ہیں ملازمیں رکھی ہوتی ہیں یا دادیاں،نانیاں بچے سنبھالتی ہیں پھر بھی بھاگم بھاگ میں ابتدائی سال اچھا خاصہ ڈپریشن ہو جاتا ہےبچوں کے بڑے ہونے پر ہی کچھ آسانی ہوتی ہے ۔آپ اللہ پاک کا شکر ادا کریں اگر کوئی مالی مسئلہ  نہیں ہے تو جاب نہ کرنا بہتر ہے۔گھر کو وقت دیں خوش رہیں۔اگر کوئی مالی مسئلہ ہے تو گھر میں رہتے ہوے کام کریں سلائی کریں،پارلر کھول لیں،ٹیویشن پڑھا دیں۔

 آرٹس مضامین والے طالبعلم کیا کر سکتے  ہیں؟

اب سب سے آخر پر وہ لڑکے ،لڑکیاں رہ جاتی ہیں جنہوں نے آرٹس مضامین میں بس پاسنگ مارکس حاصل کیے ہوتے ہیں یا سپلیاں حاصل کر کر پاس ہوے ہوتے ہیں ایسے بچوں کو اچھی نوکری  ملنا مشکل ہے ۔پرائیویٹ معمولی سی تنخواہ پے جاب مل سکتی ہے۔ لڑکیاں تو شادی تک وقت گزاری کے لیے کر سکتی ہیں لیکن لڑکوں کے لیے یہ موزوں نہیں کیوں کہ انہوں نے آگے چل کر خاندان کا نظام چلانا ہوتا ہے۔ ایسے میں بہترین کام اپنا بزنس کرنا ہے والد کے کام میں شریک ہو جائیں ۔اس سے مراد لاکھوں کا بزنس نہیں ہے۔ معمولی سی دوکان سے لے کر زراعت کا کام سنبھالنے تک شامل ہے ۔بجائے اس کے کہ لاکھوں لگا کر اپنوں سے دور جا کر مزدوری کرکے پیسہ کمایا جائےانہی پیسوں سے یہاں کام کر لیں۔پردیس کی زندگی بہت مشکل ہے یہ الگ بحث طلب موضوع ہے ۔لڑکیاں سلائی سیکھیں،گھرداری سیکھیں،دنیا کا تو پڑھ لیا جو اصل ہے ہمیشہ رہے گا اس کا علم بھی حاصل کر لیں قرآن پاک تجوید و ترجمہ کے ساتھ پڑھ لیں شادی میں اگر تاخیر یے تو وفاق المدارس سے دوسال کا کورس کر لیں۔

  ہنسی خوشی زندگی گزارانے کے  لیے ان باتوں پر عمل کریں۔

ان پڑھ نوجوان کیا کر سکتے ہیں؟

سب سے زیادہ بے روزگاری  کا مسئلہ  ان بچوں کے ساتھ ہی پیش آتا ہے جو پڑھے لکھے نہ ہوں،اکثر پرائمری و مڈل میں تعلیم چھوڑ دیتی ہے یا میٹرک فیل ہے ۔ایسے بچوں کی چونکہ بنیاد نہیں بنی ہوتی یہ تعلیم میں کسی صورت نہیں چل سکتے۔ایسے لڑکوں کو والدین آوارہ پھرنے کی بجائے کسی ہنر سیکھنے  پر ڈالیں ۔ہنر تعلیم سے بھی بڑا ہتھیار ہے جو بھوکا مرنے نہیں دیتا۔ گاڑیاں،اے سی فریج ٹھیک کرنا،الیکٹریشن و پلمبرنگ کا کام،سیلنگ و رنگ روغن یا جو خود کو پسند ہو ۔فیکٹری یا پھٹے پے ڈالنے سے ہنر سیکھنا بہتر ہے ۔نہیں تو بندہ ساری زندگی کڑی محنت کے باوجود بس دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی ہی کماتا ہے۔جو بڑے لڑکے ہیں وہ ڈرائیونگ سیکھیں،کسی دوکان پے سیل مینی کر لیں،فیکٹری چلیں جائیں،سبزی و فروٹ کی ریڑھی لگا لیں،برگر شوارمے کا سٹال لگا لیں یا کوئی اور فوڈ ںزنس کر لیں۔زمینیں ہیں تو ڈیڑے کا کام کر لیں فصلیں اگائیں دودھ بڑا مہنگا ہے جاب اور کسی بھی بزنس سے زیادہ کمائی ہو جاتی ہے ۔ اسی طرح میٹرک فیل بچیاں سلائی سیکھیں،بیوٹیشن کا کورس کر لیں۔ قرآن پاک ترجمہ و تجوید سے پڑھ لیں اور گھر داری سیکھیں۔

4.4/5 - (10 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

اہلیہ محمد صدیق

اس تحریر کی مصنفہ ہاؤس وائف ہیں اور اپنے امور ِ خانہ داری کے ساتھ اچھا پڑھنے اور لکھنے کا شوق بھی رکھتی ہیں ۔ مختلف تحریری مقابلہ جات میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ انعامات بھی حاصل کرتی رہتی ہیں۔