پچیس سالہ دانیال احمد ایک خوبصورت اور وجیہہ نوجوان تھا۔ اُس کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا، انٹرنیشنل لیول پر باکسنگ چیمپئن شپ جیتنا۔ اس کے لیے وہ پچھلے تین سال سے باکسنگ سیکھنے کے ساتھ ساتھ باقاعدگی سے جِم بھی جا رہا تھا۔ پچھلے ایک سال میں وہ ضلعی اور صوبائی سطح پر باکسنگ کے کئی مقابلے جیت چکا تھا۔ لیکن تاحال اُسے قومی سطح پر اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع نہیں مل پایا تھا۔
ایک دن حسب معمول وہ اپنی باکسنگ کلاس میں پہنچا تو اُسے پتا چلا کہ حکومت کی جانب سے قومی سطح پر ایک بہت بڑے باکسنگ مقابلے کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ جس میں ملک کے تقریباً ہر بڑے شہر سے ایک باکسر کو چنا جائے گا۔ اُس نے اس مقابلے کی پوری تفصیلات معلوم کیں، اور پہلی ہی فرصت میں مقابلے میں شامل ہونے کے لیے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروا دیے۔
کچھ دن بعد مقابلے کا انعقاد کروانے والے ادارے کی جانب سے اُسے ایک ای میل موصول ہوئی۔ جس کے اُسے آگاہ کیا گیا کہ اُسے مقابلے میں شامل کر لیا گیا ہے۔ یہ جان کر اُس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ اپنے شہر سے صرف وہ ہی منتخب ہوا تھا۔
ٹھیک ایک مہینے بعد مقابلے کا ٹورنامنٹ شروع ہونا تھا۔ اس ایک مہینے میں اُسے بہت زیادہ محنت کرنی تھی۔ کچھ بھی کر کے وہ یہ مقابلہ ہر حال میں جیتنا چاہتا تھا۔ اس لیے یونیورسٹی اور کوچنگ کلاسز وغیرہ چھوڑ چھاڑ کر وہ اپنی ساری توجہ پریکٹس پر لگا رہا تھا۔ چوبیس میں سے صرف پانچ گھنٹے آرام کرتا۔ جب کہ سات گھنٹے جم جاتااور باقی بارہ گھنٹے پریکٹس کرتا رہتا۔
ابھی مقابلہ شروع ہونے میں دس دن باقی تھے کہ ادارے کی جانب سے مقابلے میں شامل دوسرے باکسرز کی تصاویر، باکسنگ فیلڈ میں اُن کا تجربہ اور دوسری معلومات وغیرہ شیئر کی گئیں۔ یہ سب دیکھ کر دانیال کو اپنی کامیابی کے امکانات کم ہوتے نظر آنے لگے۔ لیکن وہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ اُسے کچھ کرنا تھا۔ وہ اس موقع کو ایسے ہاتھ سے نہیں جانے دے سکتا تھا۔
کافی سوچ بچار کرنے کے بعد اُس نے خفیہ طور پر ایک دوست کی مدد سے انرجی بوسٹنگ پلز منگوا کر استعمال کرنا شروع کر دیں۔ اگرچہ کھلے عام اس دوائی کی خرید و فروخت ممنوع تھی مگر درپردہ اس دوائی کے بنانے اور بیچنے والے بڑی ہی دیدہ دلیری سے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل کر اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف تھے۔
ان ادویات کے استعمال سے دانیال کو اپنے اندر ایک الگ سی طاقت محسوس ہونے لگی اور وہ خود کو ناقابلِ تسخیر تصور کرنے لگا۔ یہاں تک کہ مقابلہ شروع ہونے سے تین دن قبل اُس نے پریکٹس بھی یہ سوچ کر چھوڑ دی کہ ان گولیوں کی مدد سے وہ بڑے سے بڑے سورما کو بھی پچھاڑ دے گا تو پھر اُسے کیا ضرورت ہے فضول پریکٹس کر کے اپنا وقت ضائع کرنے کی۔
اُس کے کوچ یوں پریکٹس چھوڑ دینے پر اُس کے متعلق کافی فکر مند ہوئے۔ خاص کر اس موقع پر جب مقابلہ شروع ہونے میں محض کچھ دن باقی تھے، اُنہیں دانیال سے اس قسم کی لاپروائی کی اُمید نہیں تھی۔ انہوں نے دانیال سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ دانستہ اُن سے رابطہ کرنے سے گریز کرتا رہا۔
آخر کار مقابلے کا دن آن پہنچا۔ دانیال جیت کا یقین دل میں لیے نیشنل باکسنگ چیمپئن شپ کے بینر تلے جا پہنچا۔ اُس کے علاوہ مزید اکتیس باکسرز اس مقابلے میں شامل تھے اور وہ سب کے سب دانیال سے عمر اور تجربے میں کافی بڑے تھے۔ ان سب میں سے کسی ایک نے نیشنل چیمپئن بننا تھا۔ اس وقت ہر ایک کہ دل میں یہی اُمید تھی کہ نیشنل چیمپئن وہی بنے گا۔ جبکہ دانیال کو صرف اُمید نہیں، پختہ یقین تھا۔ لیکن یہ یقین اُسے اپنی محنت یا قابلیت پر نہیں، بلکہ اپنی اُن انرجی بوسٹنگ پلز پر تھا۔
ٹورنامنٹ کے لیے ترتیب بنائی جا چکی تھی۔ پہلے راؤنڈ میں ہر دو کھلاڑیوں کا آپس میں مقابلہ ہوا اور یوں بتیس میں سے سولہ خوش نصیب کھلاڑی دوسرے راؤنڈ میں پہنچے۔ جن میں دانیال بھی شامل تھا۔ اگلے دن دوسرے راؤنڈ کا میچ ہوا۔ دوسرے راؤنڈ میں بھی ہر دو میں سے ایک کھلاڑی چنا گیا۔ سالہ میں سے آٹھ کھلاڑی تیسرے راؤنڈ میں پہنچے۔ ان آٹھ میں سے ایک دانیال تھا۔
تیسرا راؤنڈ دو دن بعد ہونا تھا۔ تاکہ سب کو آرام اور پریکٹس کے لیے کچھ وقت مل سکے۔ دانیال ان دو دنوں میں محض دوسروں کو دکھانے کے لیے تھوڑی بہت پریکٹس کر لیتا۔ البتہ پلز کی مقدار اُس نے دگنی کر دی تھی۔ اب وہ صبح شام ایک کی بجائے دو گولیاں کھانے لگا۔
تیسرے راؤنڈ میں اُس کی کارکردگی دیکھ کر جہاں سب حیران ہوئے وہیں مقابلے کے ججز کو اُس پر کچھ شک گزرا۔ اس لیے اگلے یعنی سیمی فائنل راؤنڈ سے پہلے سب کھلاڑیوں کو میدان کے اندر سب کے سامنے میڈیکل ٹیسٹ کروانے کا کہا گیا۔ کسی کے پاس انکار کی کوئی گنجائش ہی نہ تھی۔ لیکن دانیال کو میڈیکل ٹیسٹ کا نام سنتے ہی پسینے آنے لگے۔ اُس کی بوکھلاہٹ اُس کے چہرے سے عیاں ہونے لگی۔ ہانپتے کانپتے اُس نے ڈاکٹر کو اپنا بلڈ سیمپل دیا۔ اور دل ہی دل میں دعائیں کرنے لگا کہ اُس کی پول نہ کھلنے پائے لیکن اب بھلا کیا ہو سکتا تھا۔ ایک گھنٹے کے اندر اندر ہی سب کی ٹیسٹ رپورٹس ججز کے سامنے موجود تھیں۔ جن کے مطابق اُن چار میں سے ایک کھلاڑی کے خون میں کافی زیادہ اقدار میں انرجی بوسٹنگ ادویات پائی گئی تھیں۔ وہ ایک کھلاڑی اور کوئی نہیں، دانیال تھا۔
دانیال کو الگ کمرے میں بلا کر اُس کے سامنے مقابلے کا شرائط نامہ رکھا گیا۔ جس میں صاف صاف لکھا تھا کہ اس مقابلے میں طاقت بڑھانے کی مصنوعی ادویات استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ اور خلاف ورزی کرنے والوں کو کے خلاف ادارہ قانونی کاروائی کرنے کا بھی حق محفوظ رکھتا ہے۔ دانیال ہکا بکا سا سب کچھ سنتا رہا۔ اپنی صفائی میں کچھ کہنے کے لیے اُس کے پاس الفاظ ہی نہیں تھے۔ اُس کی حالت دیکھتے ہوئے اُس کے ساتھ کوئی قانونی کاروائی کیے بغیر اُسے مقابلے سے نا اہل قرار دے دیا گیا۔
اس واقعے کا اُس کے ذہن پر بہت بُرا اثر پڑا۔ اپنی ہار تسلیم کرنا اُس کے لیے بے ہر مشکل تھا۔ ہر وقت کی سوچوں کہ وجہ سے وہ ڈپریشن میں چلا گیا۔ یونہی ایک دن اُس کا دماغ ایک دم ماؤف سا ہونے لگا اور وہ چکر کھا کر گر پڑا۔ ہسپتال لے جانے پر پتا چلا کہ مضر صحت ادویات کے حد سے زیادہ استعمال کی وجہ سے اُس کا اعصابی نظام خطرناک حد تک کمزور ہو چکا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ اُس کے دونوں گردے بھی کافی حد تک ناکارہ ہو چکے تھے۔ اب اُسے ایک طویل عرصے تک زیرِ علاج رہنا تھا اور اس دوران کسی قسم کی جم یا باکسنگ پریکٹس اُس کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتی تھی۔ وہ اپنی غلطی پر بہت پچھتایا ۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔