زندگی ایک کتاب کی مانند ہے۔ ہر گزرتا دن ایک ورق ہے اور زندگی میں رونما ہونے والے واقعات اس کتاب کے ابواب ہیں۔ ہر کتاب مختلف ابواب پر مشتمل ہوتی ہے۔ جہاں ایک باب ختم ہوتا ہے، وہیں اگلے ورق سے نئے باب کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک باب کے ختم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ کتاب ختم ہو گئی۔ کتاب میں آگے بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ بہت سے نئے سبق، اور نئے امتحان۔ جن کا مقصد آدمی کو انسان بنانا ہوتا ہے۔
آصف کی زندگی میں بھی ایسا ہی ایک موڑ آیا تھا جہاں اُسے لگا کہ بس اب سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔ زندگی میں اب اور کچھ نہیں بچا۔ لیکن یہ فقط اُس کی خام خیالی ہی تھی۔ زندگی میں تو ابھی اور بہت کچھ باقی تھا۔ اور یہ موڑ، جو اُسے اختتام لگ رہا تھا، در حقیقت یہ ایک نئی ابتداء تھی۔ زندگی کے نئے باب کی ابتدا۔
آصف نے کچھ ماہ پہلے ایک انٹرنیشنل فرم میں اپنی ساری جمع پونجی انویسٹ کی تھی۔ جو تقریباً دس لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ یہ دس لاکھ کی رقم اُس کی پچھلے پانچ سالوں کی محنت کی کمائی تھی جو اُس نے خون پسینہ ایک کر کے کمائی تھی۔ کئی لوگوں نے اُسے ان پیسوں سے کوئی کاروبار شروع کرنے کا مشورہ دیا لیکن وہ کچھ بڑا کرنا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ان پیسوں سے وہ کوئی بڑا کاروبار نہیں کر سکتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ کوئی کریانے کی دکان یا کوئی دوسرا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر سکتا تھا۔ لیکن یہ چھوٹے موٹے کام اُس کے بڑے بڑے خواب پورے کر پانے کے لیے کافی نہیں تھے۔ اس لیے اُس نے اس انٹرنیشنل فرم میں انویسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس انویسٹمنٹ کے بدلے میں کمپنی کی طرف سے اُسے دس سالہ کنٹریکٹ دیا گیا تھا۔ جس کے رو سے اُسے ایک اچھی پوسٹ پر نوکری ملنے والی تھی۔ نا صرف یہ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اچھا خاصا سالانہ بونس اور دس سال بعد کنٹریکٹ ختم ہونے پر دس لاکھ کے بدلے بیس لاکھ کیش بیک ملنا تھا۔ اس کمپنی کے بارے میں سرسری سی جانچ پڑتال کرنے کے بعد اُس نے یہ کنٹریکٹ سائن کر کے اپنی ساری جمع پونجی انویسٹ کر دی۔ ایک مہینے بعد اُسے دوسرے شہر میں واقع ایک دفتر کا پتہ دے کر نوکری جوائن کرنے کا کہا گیا۔
اُس نے اپنے گھر والوں اور دوستوں کو ان سب معاملات سے بے خبر رکھا تھا کیونکہ اُسے وقتی طور پر ایسا لگ رہا تھا کہ سب اُس کی کامیابی کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کریں گے۔
وہ ایک مہینہ انتظار کرنے کے بعد جب دوسرے شہر پہنچا تو پہلے دو دن تو مطلوبہ پتہ ڈھونڈنے میں ہی لگ گئے اور جب مطلوبہ مقام پر پہنچا تو اُس نے دیکھا کہ وہاں نہ تو اُس نام کا کوئی دفتر تھا، جو اُسے بتایا گیا تھا اور نہ ہی کوئی اُس کمپنی کا نام تک ہی جانتا تھا جس کے ساتھ اُس نے کنٹریکٹ سائن کیا تھا۔
اُسے پریشانی اور پچھتاوے کے ایک شدید احساس نے آن گھیرا۔ پچھلے پانچ سالوں کی محنت کی کمائی یوں اپنے ہاتھوں سے لٹا کر اب وہ بالکل خالی ہاتھ رہ گیا تھا۔ ان پیسوں سے اگر وہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر لیتا تو کچھ نہ کچھ تو بنا ہی لیتا لیکن زیادہ نفع کے لالچ اور کچھ بڑا کرنے کے جنون میں اُس نے وہ سب کچھ بھی کھو دیا جو اُس کے پاس تھا۔
اب یوں سب کچھ لٹا کر تہی دست و داماں واپس اپنے شہر جانے اور گھر والوں اور دوست احباب کا سامنا کرنے کی ہمت اُس میں نہیں تھی۔ لیکن اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ پس وہ الٹے قدموں واپس آیا اور سیدھا اُس فرم کے دفتر کا رخ کیا۔ لیکن وہاں جا کر اُسے پتا چلا کہ وہ کوئی مستقل دفتر نہیں بلکہ کرائے کی عمارت تھی۔ جو کہ دو دن پہلے ہی خالی ہو چکی تھی۔ کمپنی کے ایجینٹس سے رابطہ کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوئی۔ اب اُس کی رہی سہی اُمید بھی دم توڑ گئی۔ وہ خود کو مایوسی کے ایک گہرے پاتال میں گرتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ اُسے لگا کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے۔
اُس نے پولیس کی مدد لینے کی بھی کوشش کی لیکن اُس کے پاس موجود کنٹریکٹ کے کاغذات کسی سرکاری یا پرائیویٹ ادارے سے منظور شدہ نہیں تھے۔ اُن کی اہمیت ردی کے ایک ٹکڑے سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ اپنی بے وقوفی پر حد درجہ پشیمان ہوا لیکن اب بھلا کیا ہو سکتا تھا۔
اسی مایوسی کے عالم میں وہ گھر گیا اور گھر والوں اور دوست احباب کو ساری صورتِ حال سے آگاہ کیا تو سب نے اُسے لعنت ملامت کی۔ اُس کی بے وقوفی پر اُسے عار دلائی۔ اس سب سے وہ مزید دل برداشتہ ہو گیا۔ اُس نے خود کو اپنے کمرے تک ہی محدود کر لیا۔ نہ کسی سے بات کرتا نہ باہر جاتا، بس ہر وقت خود کو کمرے میں بند کیے کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا۔ اُسے لگنے لگا تھا کہ وہ ایک ایسا ناکام بندہ ہے جو اپنا سب کچھ گنوا چکا ہے۔ اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے سب کے لیے اُس کا وجود ایک بوجھ بن چکا ہے۔ وہ ڈپریشن کا شکار ہو چکا تھا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اُس کی شدت میں مزید اضافہ ہو رہا تھا۔ یہاں تک کہ اُس نے اپنی زندگی تک ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اور ایک دن گھر سے نکل کر دریا کا رخ کیا۔ آج وہ خود کو اُس ناکامی کی زندگی سے آزاد کر دینا چاہتا تھا۔
دریا کے کنارے پہنچ کر وہ خود کو اپنے ارادے کی تکمیل کے لیے کمپوز کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ اُس کی آنکھوں کی سرخی اور نمی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ چند قدم پانی کی طرف بڑھاتا اورپھر واپس پلٹ آتا۔
پاس ہی ایک سفید ریش بزرگ جو دریا کے کنارے پھل بیچ رہے تھے، اُسے بھیڑ بھاڑ سے الگ تھلگ دیکھ کر اُس کے پاس گئے اور اُس کی ذہنی حالت کا اندازہ کرتے ہوئے اُسے اپنے ساتھ ایک بڑے سے پتھر پر بٹھا کر اس قدر مایوسی کی وجہ دریافت کرنے لگے۔
آصف نے اُنہیں الف سے ے تک اپنی ساری کہانی سنائی اور آخر میں بتایا کہ کس طرح سب نے اُس کو تسلی دینے اور ہمت بندھانے کے بجائے اُس کی حوصلہ شکنی کی تھی۔ اُس کی باتیں سن کر بزرگ مسکرائے اور پھر اُسے بتایا کہ ہر روز اُس جیسے ناجانے کتنے نوجوان حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے یہ قدم اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن مجھے یہ بتاؤ کہ کیا پیسہ زندگی سے بھی بڑھ کر ہے کہ تم لوگ اس کی خاطر اپنی زندگی تک ختم کر دیتے ہو؟ کوں کہتا ہے کہ کامیابی صرف پیسے کے ہونے یا نہ ہونے سے مشروط ہے۔ ٹھیک ہے، کہ تمہاری پانچ سال کی محنت ضائع ہو گئی، لیکن محض پانچ سال کے لیے تم اپنی آنے والی زندگی کے تیس چالیس سال قربان کرنے چلے ہو، یہ انصاف تو نہ ہوا نا؟
کتاب کا جب ایک صفحہ ختم ہوتا ہے تو دوسرا صفحہ الٹانا پڑتا ہے۔ اور یہ کام خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ نہ تو خود کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑا جاتا ہے اور نہ ہی کسی اور سے یہ اُمید لگائی جاتی ہے کہ وہ آ کر آپ کو مشکل وقت کے بھنور سے نکالے گا۔ ہم اپنی ناکامیوں سے کم اور لوگوں کی باتوں سے زیادہ خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اگر تمہاری بھی کوئی ہمت بندھاتا تو آج تم یہاں نہ آتے بلکہ اپنی زندگی کی ایک نئی شروعات کرنے کے لئے گھر سے نکلتے۔ لیکن یاد رکھو، کہ حالات کے گرداب سے کوئی کسی کو نکالنے نہیں آتا۔ اپنا مسیحا خود بننا پڑتا ہے۔
جب تک سانس باقی ہے، زندگی ختم نہیں ہوئی ہے، تب تک موقع بھی ختم نہیں ہوں گے۔ جاؤ، اپنے لیے مواقع تلاش کرو اور لوگوں کو بتاؤ کہ تم ناکام نہیں ہو۔ لیکن ہاں، اپنی غلطیوں سے سبق لینا مت بھولنا۔
آصف کو اسی حوصلہ افزائی کی ضرورت تھی۔ جو اُسے اپنے گھر والوں اور دوستوں سے نہیں مل سکی تھی۔ وہ بزرگ اُس کے لیے مسیحا ثابت ہوئے اور وہ جس ارادے سے آیا تھا، اُسے ترک کرتے ہوئے ایک نئے سرے سے اپنا سفر شروع کرنے کا ارادہ لیے واپس پلٹا۔ اُسے اپنی محنت اور لگن سے دنیا کو دکھانا تھا کہ وہ ناکام نہیں ہے۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔