اگر آپ کسی سے وابستہ توقعات کی سیڑھی پر چڑھ بیٹھے ہیں تو ذہن کی سکرین سے اس بات کو مٹنے نہیں دیجیے گا کہ توقعات پوری نہ ہونے پر آپ مایوسی، اداسی، ڈپریشن اور ناکامی کے گڑھے میں لازمی جا گریں گے۔
ہم امید تو اللہ تعالی سے باندھتے ہیں لیکن توقعات لوگوں سے یا اپنے آپ سے بھی وابستہ کر لیتے ہیں۔ اللہ سے کی گئی امید تو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اگر امید ختم ہو جائے تو دنیا ہی ختم ہو جاۓ کیونکہ دنیا امید پر قائم ہے۔ ساحل نظروں سے اوجھل ہو تب بھی کنارے کے وجود پر یقین تو ہوتا ہے ، بس یہی امید ہے ۔
امید کا متضاد مایوسی یا منفی خیالات ہیں اور ان منفی خیالات سے انسان جب ہی باہر نکل سکتا ہے کہ جب اس کے دل کے کسی کونے میں امید کی کرن روشن ہو اور دوسروں کی توقعات پوری کرنے کے لیے اس کے دل میں نیکی کی کرن روشن ہو ۔ نیک توقعات رکھنے والا جو راہ راست پر بھی ہو وہ دوسروں کو بھی نیکی کے کاموں کی طرف ترغیب دلاتا ہے۔
مصائب و آلام، دکھ اور صدمات انسانی زندگی کا جز ہیں۔ نامساعد حالات کو شکست دینے کے لیے امید ہی انہیں تحریک دیتی ہے۔ انسان جس معاشرے میں رہتا ہے اس کی کچھ اینٹیں امیدوں یا توقعات سے بھی بنی ہوئی ہیں۔ اگر کسی بھی انسان سے کسی کو، کسی بھی طرح کی کوئی توقع وابستہ نہ ہو مطلب یہ کہ وہ معاشرے کا حصہ نہیں ہے۔ یعنی کہ نہ اس انسان کو کسی سے کوئی توقع اور نہ کسی کو اس سے کوئی آرزو، خواہش اور نہ ہی کوئی تمنّا ہو۔ جیسے والدین کو اولاد سے توقعات ہوتی ہیں۔ استاد کو شاگرد سے، عوام کو حکمرانوں سے، دوستوں کو ایک دوسرے سے اور اسی طرح آپس میں رشتہ داروں کو بھی توقعات ہوتی ہیں۔
امید میں ایک خوشگوار احساس بھی ہوتا ہے اور یہ مثبت احساسات کو ظاہر کرتی ہے جبکہ توقع میں ناکامی کی صورت خطرہ زیادہ ہوتا ہے ۔کچھ لوگ اس بیرونی امداد یعنی کہ توقع کے حد درجہ عادی ہو جاتے ہیں ۔ بڑھتی توقعات نقصان کا باعث ہوتی ہیں۔ توقعات رکھنے سے پہلے حدود بھی خود ہی متعین کر لینی چاہیے کیونکہ مشکل وقت میں حال، انسان کے سامنے ہوتا ہے اور مستقبل کی تصویر کشی وہ اپنی توقعات اور امیدوں سے کرتا ہے۔
کیونکہ انسان کمزور بھی ہے اور اس کے پاس محدود اختیارات ہیں۔ اس لیے کبھی کسی سے اس کی استطاعت سے بڑھ کر توقع نہ رکھیں ورنہ نتیجہ آپ جانتے ہیں۔ توقع رکھنا ایک طبعی اور زندگی کا اہم حصہ ہے یہ حقیقت پر مبنی ہونا چاہیے۔ کسی کی قابلیت سے بڑھ کر توقع رکھنا خود غرضی ہے۔ توقع رکھنے کے بعد حوصلہ اور استقامت رکھیں ناکامی کی صورت میں کسی کو الزام دیے بغیر نئی راہیں تلاش کرنی چاہیے۔ بھلائی اور نیکی کے لیے توقعات رکھنا بہت اہم ہے۔ امید کرنا کہ دوسرے انسان بہترین کردار اختیار کریں گے اور نیک کام کریں گے۔ یہ سوچ انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ بہتر معاشرتی رشتہ بنانے میں مدد کرتے ہیں یہ ایک اہم جز ہے جو انسانی معاشرت کو مزید محبت بھرا بناتا ہے۔
کسی کی توقعات پر آپ پورے اتریں تو رشتے اور تعلقات بہتر اورخوبصورت ہو جاتے ہیں۔
کبھی کبھار اپنی توقعات کم رکھنا اور خود پر بھروسہ رکھنا بہترین طریقہ ہوتا ہے۔ اس سے آپ کو دکھ اور افسوس کم ہوتا ہے اور زندگی میں زیادہ خوشیاں محسوس ہوتی ہیں۔ امید چراغ ہے، امید شمع ہے، امید روشنی ہے، امید کو خوبصورت چیز بھی کہا گیا ہے اور امید کی کرن کو بھی لوگ ڈھونڈتے ہیں۔ لوگ کتنے اچھے ہیں یہ اسی وقت پتہ چلتا ہے جب کسی برے وقت پر رشتے ناطے اور تعلقات کا پٹارا کھلتا ہے لیکن رب تعالی جس نے مایوسی کو کفر کہا، اُس سے ناامید نہ ہونے والا ہی کامیاب ہوتا ہے۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔