بحیثیتِ قو م ہم کسی اور بارے میں اتنے لاپرواہ نہیں ہوئے جتنا کہ مذہب سیکھنے کے بارے میں ہوئے ہیں۔اسی لاپرواہی میں ہم دین سیکھنے کے لیے مخصوص ذرائع کا استعمال کرتے ہیں یہ جانے بنا کہ یہ ذرائع ہمیں کس حد تک حقیقی دین کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں اور کس حد تک دین سے دور لے جا رہے ہیں۔
یہاں ہم ان عام ذرائع کا جائزہ لیں گے جن کے ذریعے ہمارے معاشرے میں دین کو سمجھا جاتا ہے۔
آباواجداد کے ذریعے
ہمارے معاشرے میں اکثریت چونکہ پیدائشی مسلمانوں کی ہے اس لیے زیادہ تر دینِ اسلام کو اللہ کی کتاب اور سنتِ رسول کی بجائے بزرگوں اور آباؤ اجداد کے طور طریقوں اور روایات سے سمجھا جاتا ہے اور پھر انہی پہ تکیہ کر لیا جاتا ہے۔ایسے لوگوں پر اللہ نے ان الفاظ میں تبصرہ فرمایا ہے کہ
"اور جب ان سے کہا جائے اللہ کے اتارے پر چلو تو کہتے ہیں بلکہ ہم تو اس ہر چلیں گے جس پر اپنے باپ دادا کو پایا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ عقل رکھتے ہوں نہ ہدایت”۔(البقرہ: 170)
تاریخ کے ذریعے
ہماری سوسائٹی کا ایک المیہ یہ ہے کہ سوانح و تاریخ کی کتابوں کو دین سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ حقیقت میں یہ کتابیں انسانوں کی لکھی ہوئی ہیں اور انسانوں کی لکھی ہوئی تحاریر پر رسم و رواج ، حالات و مسلک اور فہم و تدبر کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ اس لیے ان تاریخ و سوانح کی کتب میں حقیقت سے پرے بھی واقعات و حالات ملتے ہیں۔دوسری طرف دین میں ایسی کتب کی کوئی استناذی حیثیت بیان نہیں ہوئی۔
جذبات و خیالات کے ذریعے
ہم میں سے اکثر لوگ دین کو سمجھنے کے لے جذبات کا سہارا لیتے ہیں اور دین کی حکمت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔نیز بعض لوگ جو کچھ سن لیتے ہیں اس پہ ایسا ایمان لاتے ہیں کہ اگر کوئی ان کے سنے ہوئے کو غلط کہنے کی کوشش کرے تو بجائے یہ کہ مخالفت کرنے والے کی بات تحمل سے سنیں ، جذباتی ہو جاتے ہیں۔ ایسا اس لیے کہ ہم نے دین کو حکمت و فہم سے نکال کر جذباتی مسئلہ بنا لیا ہے۔اس کی عام مثال پہلے پہل پیوندکاری و واش رومز کو برا سمجھنا اور حرام قرار دے دینا تھا۔ آج کل یہ مثال لڑکوں کے نقاب کرنے کے سلسلے میں دیکھی جا سکتی ہے جو کے سراسر جذبانیت کا نتیجہ ہے ۔ اس کے علاوہ اپنے فرقہ سے حد سے زیادہ لگاؤ بھی جذبانیت کی ایک مثال ہے کہ ہم دوسرے کی بات سننے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور جذبات میں آ کر اسے کافر قرار دے دیتے ہیں۔
کتب و رسائل کے ذریعے
ہمارے معاشرے میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو بس لکھے ہوئے پر ایمان لے آتے ہیں۔ چاہے وہ تحریر کسی کتاب میں ہو یا رسالے میں وہ جو بھی پڑھ لیں اس پر ایمان کی حد تک یقین کر لیتے ہیں۔ چاہے وہ کتب و رسائل کتنے ہی غیر معیاری ہوں اور کہی گئی بات غیر مستند کیوں نہ ہو۔ اس کی مشہور مثال قصص انبیاء اور صحابہ اکرام سے منسوب اقوال ہیں۔
سوشل میڈیا (فیس بک، ویب سائٹ، ٹی وی وغیرہ )کے ذریعے
ہمارے معاشرے میں ایک نیا بڑھتا ہوا رحجان سوشل میڈیا کا ہے۔ ہم لوگ روزانہ سارا سارا دن سوشل میڈیا کے ساتھ ان ٹچ رہتے ہیں۔ اس لیے ہم میں سے اکثر اسلام کو ان کے ذریعے ہی پڑھنا یا سیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے میں سوشل میڈیا پہ پڑھی ہر دوسری بات جو اسلام سے متعلق ہوتی ہے ہم ان پر بلاجھجھک یقین کر لیتے اور اسے آگے پھیلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔چاہے سوشل میڈیاپہ اسلامی مسائل و فقہ بیان کرنے والا خود بھی ا س مسئلہ کو نہ جانتا ہو اور اس کی بیان کی گئی بات کتنی ہی غیر مستند یا ضعیف ہو۔اس کی عام مثال حضرت علیٰ و دیگر صحابہ کے اقوال اور امام مہدی و فتنہ دجال کے ظہور کی کہانیاں ہیں۔
پیر و مرشد کے ذریعے
برصغیر میں پیر و مرشد اور ان کو ماننے والوں کی کثرت ہے۔ اس لیے ہم میں سے اکثر لوگ پیر و مرشد سے جو سنتے ہیں ان کو عن و من مان لیتے اور اسی پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ تو مریدی میں اتنا بڑھتے ہیں کہ پیر ومرشد کے کہے کو سنت قرار دے کر اس پر دل و جان سے عمل کرتے ہیں تا کہ آخروی زندگی میں نجات حاصل کر سکیں۔حالانکہ دینِ اسلام میں پیر و مرشد کا کوئی تصور موجود نہیں ہے ۔صحابہ اکرام سے بھی یہی طریق ملتا ہے کہ وہ کسی کو پیر و مرشد نہ مانتے۔ بلکہ جہاں کہیں کسی میں بھی (چاہے وہ اکابر صحابہ میں سے کیوں نہ ہوتے) کوئی بات سنتے یا کوئی عمل دیکھتے تو ان سے اس بات اور عمل کی وضاحت طلب کرتے تا کہ کوئی ایسا فعل اختیار نہ کر لیا جائے جو خلافِ دین ہو۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر یہ سارے ذرائع ہی غلط ہیں تو دین کو سمجھنے کے لیے ہمیں کون سے ذرائع پر اعتماد کرنا چاہیے اور کون سے ایسے ذرائع ہیں کہ ہم ان سے اصل دین کو سمجھ سکتے ہیں۔
ان ذرائع میں سب سے پہلے تو قرآن و سنت ہے جن کے ذریعے ہم دین کو اس کی اصل میں سمجھ سکتے ہیں۔کیوں کہ روزمرہ زندگی کے تمام احکامات و فعل ہمیں ان دو ذرائع سے اپنی اصل حالت میں مل جاتے ہیں۔ اس میں یہ دھیان رہے کہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے اس کی زبان کو سمجھنے کی کوشش کی جائے یا کم از کم ترجمہ سے ہی پڑھ کر خود دین اور اس کے احکام کو سمجھا جائے۔اسی طرح سنت و حدیث سے دین سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ صرف مستند صحیح حدیث پر اکتفا کیا جائے اورضعیف احادیث پر عمل کرنے سے احتیاط برتی جائے۔
آباؤ اجداد، سوشل میڈیا، کتب و رسائل، تاریخی کتب، اور پیر و مرشد و دیگر ذرائع سے حاصل کیے جانے والے دینی علم و عمل کو جوں کا توں ماننے کی بجائے اس کے قرآن و سنت سے مطابقت و دلائل کے متعلق تسلی کر لی جائے۔کسی ایسی بات پر عمل کرنے سے پرہیز کیا جائے جس کی سند ہمیں قرآن ، سنتِ رسول یا صحابہ اکرام سے نہ ملتی ہو۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔