رہنمائی

اپنے بچوں کی ذمہ داری خود لیں

آج کے بچے کل کے نوجوان ہیں اور  کسی بھی قوم کی ترقی اس کے نوجوانوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔  اگر نوجوان صلاحیتوں سے بھرپور،پڑھے لکھےاچھی عادات کے حامل ہوں تو ملک تو ترقی کی راہ پے گامزن ہوتا ہی ہے ۔ باہر کی دنیا میں بھی اعتماد بحال ہوتا ہے۔ہمارے ہاں بدقسمتی سے بچوں کی تعلیم و تربیت کا کچھ خاص اہتمام نہیں کیاجاتا ، بس رسمی سا سکول اور مدرسہ بھیج دیا روٹی پانی اور لباس کی ضرورت پوری کر دی اور  والدین کی ذمہ داری ختم۔

چند ایک کے علاوہ والدین کی اکثریت لاپرواہ ہے جو کہ اچھی چیز نہیں ہے۔ اسکول کی رپورٹ خراب آئے تو والدین سکول پہ ڈالتے، سکول والے والدین پہ، پھر دونوں مل کے ٹیویشن پہ۔  یہ ہی سرکل چلتا رہتا ہے، اسکولز اور ٹیویشنز سنٹر بدلتے رہتے ہیں، نتیجہ صفر رہتا ہے۔

اس صورتحال سے دوچار ہونے والے والدین ایک بار خود کو بدل کر دیکھیں۔باپ جتنا بھی مصروف کیوں نہ ہو رات کو تھوڑی دیر شفقت سے بچے کو اپنے پاس بیٹھا کر چند ایک بات کرے ، پھر اس دن کا سکول اور سپارے دونوں کا سبق سنے کاپیاں چیک کرے شاباش دے ۔ نالائق سے نالائق بچہ بھی بہتر ہونا شروع ہو جائے گا۔  ماں بہت مصروف ہے لیکن دن میں کسی بھی وقت زیادہ نہ سہی دس سے پندرہ منٹ بچے کو لے کر پڑھنے بیٹھے ٹیویشن جاتا تو وہاں جو یاد کیا وہ سنے پیار پیار میں موٹیویٹ کرے کہ سبق اچھی طرح یاد کر لو رات کو پاپا سنیں گے تو انعام دیں گے۔

میرا بیٹا تین سال کا تھا، ماشاءاللہ زبان صاف تھی۔  ہم نے سوچا سپارہ سکول سے پہلے پڑھ لے ، سو بھیج دیا اس کو ۔ خود بھی بڑا شوق تھا صبح ایک آواز پے اٹھ جاتا تھا۔جہاں بھیجا وہاں پہ دیکھا کہ آٹھ سے دس سال کے بچے ابھی نورانی قاعدے پہ  ہیں ۔چند دن بچہ گیا سبق سنا تو زبانی دو تین لفظ یاد تھے پہچان نہیں تھی میرے شوہر نے نوٹ کیا کہ ادھر بچے زیادہ ہیں قاری صاحب لیٹ آتے تب تک بچے آپس میں شرارتیں اور جھگڑے کرتے رہتے ہیں۔ ہم نے ایک باجی کے پاس بھیج دیا وہ بچی عالمہ تھی اور اس کی تجوید بہت اچھی تھی بہت توجہ سے پڑھاتی تھی بچے نے کتنی جلدی دو ،تین تحتیاں پڑھ لیں ۔ پھر اس کی شادی کی وجہ سےسلسلہ ٹوٹ گیا ۔

  آپ کون ہیں، کیوں ہیں

چند دن فارغ ہی گزرے پتہ چلا کہ محلے میں ہی ایک بچی نے پڑھانا شروع کیا سن کر خوشی ہوئی کہ چلو گھر قریب کا فائدہ ہو جائے گا۔وہ بچی ابھی خود عالمہ کے آخری سال میں تھی۔ چار بجے تھکی آتی ، اتنی توجہ نہیں دے پاتی تھی چھ سے سات مہینے میں بچہ انہیں ابتدائی تحتیوں پے تھا۔دو تین دفعہ گھر بلا کر سمجھایا کہ توجہ دو ہر دفعہ اچھا کر دیتی نتیجہ صفر پھر امتحانات کے باعث چھٹیاں کر دیں تو سوچا کہ چلو فری ہو کر توجہ سے پڑھائے گی جب دوبارہ سلسلہ جڑا تو وہ ہی صورتحال بچے پڑھنے گے تو بڑی بچیوں کو سبق سننے پے لگا دیا خود کبھی چاچو گھر کبھی کسی گھر۔سات سے آٹھ مہینوں بعد بھی وہ ہی سبق جہاں سے شروع کیا تھا مجھے تشویش ہوئی پانچ سال عمر ہو گئی ہے اور ابھی قاعدہ بھی ختم نہیں ہوا اب مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ جو بچے آٹھ سے دس سال کے ہو گے تھے وہ کیوں ابھی نورانی قاعدے پر ہی تھے۔

اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بیس سے تیس بچوں میں سے کسی ماں نے بھی آ کر نہیں پوچھا کہ ہمارے بچے کا سبق کہاں پہنچا ہے نہ سبق سننے کی ضرورت محسوس کی ہےفیس بھی ہر ماہ دی جارہی ہیں۔

  ایمان رکھنے والے لوگ ہمت نہیں ہارتے

میں نے ساری صورتحال دیکھ کر فیصلہ کیا ہے کہ جس طرح سکول کا خود پڑھا رہی ، سپارے کی ذمہ داری بھی میں خود لوں گی ایسے ساتھ ساتھ میری تجوید بھی بہتر ہو جائے گی۔ رمضان کی وجہ سے بچے گیارہ بجے سکول سے  آ رہے تو گھر آ کر کھانا کھانے کے بعد ان کو کھیلنے کا ٹائم دیا ہوتا ۔ ظہر کی نماز کےبعد پڑھنے کا وقت رکھا ہے ۔ یقین جانیے دو سے تین دن میں ہی صرف پندرہ سے بیس منٹ دینے پربچوں نے اتنا پڑھ لیا ہے  جتنا پچھلے سات مہینوں میں بھی نہیں پڑھا۔بچوں کو کہہ دیا محنت کرنی ہے عید پے سپارہ ختم ہو پھر چیز بانٹیں گے تا کہ ان کو پڑھنے کا شوق ہو۔مجھے امید ہے بہت جلد بچوں کا قرآن مکمل ہو جائے گا پھر ترجمعہ پڑھیں گے۔

بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بچے آپ کے ہیں  تو ذمہ داری بھی  آپ لیں ۔ کسی ادارے پہ نہ ڈالیں۔بچے بڑے ہو کر ناکارہ بنے تو دنیا و آخرت آپ کی برباد ہونی ہے کسی ادارے کے لوگوں کی نہیں۔ذریعہ معاش کے علاوہ جتنی فکریں عورتوں نے پالی ہوئی ہیں ساری فضول ہیں ، وقت برباد کرتی ہیں ۔ سب سے اہم آپ کے بچوں کا مستقبل ہے اس پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے۔

4.2/5 - (5 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

اہلیہ محمد صدیق

اس تحریر کی مصنفہ ہاؤس وائف ہیں اور اپنے امور ِ خانہ داری کے ساتھ اچھا پڑھنے اور لکھنے کا شوق بھی رکھتی ہیں ۔ مختلف تحریری مقابلہ جات میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ انعامات بھی حاصل کرتی رہتی ہیں۔