آج کے بچے نے جب اس دنیا میں آنکھ کھولی تو اس نے اپنے والدین کو ایک چھوٹے سے رنگ برنگے جلتے بجھتے کھلونے سے کھیلتے ہوئے دیکھا ۔ماں اگر اسے دودھ پلا رہی ہے تو یہ کھلونا ماں کے ہاتھ میں ہے اور والد صاحب دفتر سے واپس آتے ہیں تو ان کے ہاتھ میں بھی یہی عجیب و غریب کھلونا ہوتا ہے تو یہ نسل سمجھ جاتی ہے کہ یہ کھلونا بھی ان کے خاندان کا حصہ ہے لیکن اس کھلونے نے اس نسل کو بہت سارے نقصانات بھی پہنچائے ہیں۔
اس نسل کو والدین کی وہ توجہ میسر نہیں آئی جو اس سے پہلی نسل حاصل کر چکی تھی۔ ان کی جذباتی نمو اس انداز سے پروان نہیں چڑھ سکی جس کا حالات ان سے تقاضا کرتے ہیں۔ ان کی دماغی نمو بھی اس کھلونا نما مشین سے متاثر ہوئی ہے۔ اس نسل نے زندگی کو بڑا ہی تیز دیکھا ہے یہی تیز رفتاری اب اس نسل کے ہر معاملے میں والدین کو نظر اتی ہے اور والدین ان کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں ۔جب کہ اس میں سراسر قصور والدین کا ہے۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آج کی نسل اپنی تلاش میں ہے۔
اس ٹیکنالوجی سے بھرپور دور نے نا صرف بچوں کو متاثر کیا ہے بلکہ والدین کو بھی پریشان کر دیا ہے اب والدین کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئی ہیں ۔ان بچوں کی بہترین تربیت کے تقاضے بھی مختلف ہیں۔ چونکہ ان بچوں کی طبیعت میں عجیب سی بے چینی ہے ،تیزی اور خود سری ہے ان باتوں کو دیکھتے ہوئے اساتذہ اور والدین کو اپنا تربیت کا طریقہ کار تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔اسی حوالے سے چند اہم باتوں پر عمل کر کے ہم اس نسل کی بہترین تربیت کر سکتے ہیں ، اس نسل کو پہچان اور اپنے سکون کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
جذباتی و اخلاقی تربیت
اکیس ویں صدی کے بچوں کو جہاں پر بہت ساری موبائل ایپس کا سامنا ہے وہاں ہی اس نسل نے کووڈ کا بھی سامنا کیا ہے اس کووڈ کے دور میں انہوں نے وہ تمام چیزیں سیکھ لیں جو کہ ابھی تک ان کے والدین بھی نہیں سیکھ سکے یعنی سوشل میڈیا کا استعمال ،الیکٹرانک ڈیوائسز کا استعمال، ویڈیوز ، اور اس سے ملتی جلتی تمام سوشل میڈیا ایپلیکیشنز ان کی فنگر ٹپس پہ ہیں۔ اس میں سب سے خطرناک ایپلیکیشن ٹک ٹاک ہے۔ اس نے نہ صرف ہمارے بچوں کی اخلاقیات کا جنازہ نکالا ہے بلکہ بہت سارے والدین بھی اس سیلاب میں بہہ گئے ہیں بہتری کی جانب جانے کی بجائے یہ معاشرے میں تنزلی کا باعث بنی ہے ۔
معاشرے میں اخلاقی بگاڑ ،روزمرہ بات چیت میں ذو معنی جملوں کا بے دریغ استعمال ،اور لچر بازی عام ہوئی ہے ۔چونکہ یہ اس نسل نے اپنی پیدائش سے ہی ان چیزوں کو دیکھ لیا تھا تو گویا یہ ان کی تربیت میں شامل ہو گیا۔ اب والدین نے ان کو اس سے بچانا تھا ، لیکن وہ بھی اسی رو میں بہہ گئے ۔گویا اب ہمیں نہ صرف ان بچوں کی تربیت کی طرف دھیان دینا ہے بلکہ والدین کی تربیت بھی اہمیت حاصل کر گئی ہے۔
اب بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی اپنے آپ کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے نہ صرف بچوں کی جذباتی تربیت کی طرف دھیان دیں بلکہ اپنے جذباتی معاملات کو بھی بہتر کریں۔ جب بھی بچوں کو نصیحت کریں تو بالکل پرسکون ہو کر ان سے بات کریں ۔ان کو یہ محسوس نہ ہو کہ آپ ان کو نصیحت کر رہے ہیں بلکہ بات چیت کے انداز میں یہ نصیحت ہونی چاہیے اور ان کو پھر اس پر عمل کے لیے کچھ وقت دیں کیونکہ وہ کوئی ٹچ موبائل نہیں ہیں
ان کی بات کو توجہ سے سنیں
ان کو اہمیت دیں تاکہ ان کو یہ محسوس ہو کہ وہ اپنی ایک الگ شناخت رکھتے ہیں۔ *ان سے مشورہ لیں اس سے ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا ہوگا اور وہ جذباتی بہتری کی طرف جائیں گے۔ والدین نے ان ایپلیکیشن کے ساتھ مل کر اپنے بچوں کی معصومیت چھین لی ہے کیونکہ انہوں نے ان بچوں کو بھی ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے پہ لگا دیا اب ان کی یہ معصومیت تو ہم واپس نہیں لا سکتے لیکن ان کو معاشرے کا ایک بہتر فرد بنا سکتے ہیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم ان کو اخلاقی اور جذباتی طور پر صحت مند بنانے پر کام شروع کر دیں
رشتوں کا تقدس
بچوں کو رشتوں کا تقدس اور معاشرتی اقدار سکھانا بہت ضروری ہو گیا ہے اس سوشل میڈیائی یلغار نے رشتوں کے تقدس کو ہم سے اوجھل کر دیا ہے اگر ہم ایک متوازن معاشرہ چاہتے ہیں تو اساتذہ اور والدین مل کر ان مقدس رشتوں کے تقدس کو بحال کروائیں۔
دماغی صحت
اکیس ویں صدی نے سب سے زیادہ بچوں کی دماغی صحت کو متاثر کیا ہے ۔بچے اپنا زیادہ وقت ڈیوائسز کے ساتھ گزارتے ہی۔ں صحت بخش سرگرمیوں سے محروم ہو چکے ہی۔ں اس لیے ان کی دماغی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ ایک ریسرچ کے مطابق آنے والے دور میں جسمانی بیماریوں کی بجائے لوگوں کو دماغی بیماریاں زیادہ ہونے کا خطرہ ہے ۔والدین اور اساتذہ مل کر بچوں کو صحت بخش سرگرمیوں میں مصروف کریں ۔تاکہ ان کی دماغی صحت کو بہتر بنایا جا سکے اس کے لیے سکولوں میں مختلف کھیلوں کا انعقاد ضروری ہے۔
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات
اکیس ویں صدی نے انسان کو بہت سارے فوائد بھی مہیا کیے ہیں ۔لیکن آج کا انسان اس کی بہت بڑی قیمت چکا رہا ہے ۔اگر ہم اقبال کے اس شعر کو مدنظر رکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ” احساس مروت ” مکمل ختم تو نہیں ہوا ،لیکن ڈھونڈے سے ہی کہیں نظر آتا ہے ۔
اس احساس مروت،محبت،اخلاص کو دوبارہ نئی زندگی دینے کی ضرورت ہے، اور اس کا آغاز تعلیمی اداروں سے ہو سکتا ہے ۔اس کا بہترین ذریعہ اساتذہ اور والدین ہیں۔ آئیں مل کر یہ عہد کریں کہ ہم اپنی نئی نسل کو نہ صرف اخلاقی طور پر بہتر کریں گے بلکہ جذباتی طور پر بھی ہم سے جتنا ہو سکا ان کی تربیت کریں گے۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔