رہنمائی

خوداعتمادی کیسے پیدا کریں

خوداعتمادی ایک صحت مند شخصیت کیلئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔بعض افراد میں خود اعتمادی کی اتنی کمی ہوتی ہے کہ ہر نئے کام میں ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتے ہیں۔وہ اپنے بارے میں بے یقین  ہوتے ہیں۔زندگی میں کسی بھی کام میں سرخروئی کیلئے خوداعتمادی ضروری ہے کیونکہ اگر آپ خود پر بھروسہ کریں گے تودنیا آپ پر اعتماد کرے گی۔

کچھ افراد ایسے ہیں جن میں خوداعتمادی کی بہت قلت ہوتی ہے۔جبکہ انسان جتنا بھی ذہین وفطین کیوں نہ ہو اس میں خوداعتمادی نہ ہو تو سب قابلیت بے سود ہوتی ہے۔جدہرقابلیت ہونا ضروری ہے ،وہیں خوداعتمادی ہونا بھی ضروری ہے۔

کچھ لوگوں میں خوداعتمادی کی کمی بچپن ہی سے ہوتی ہے ،تو کچھ میں وقت کے بدلتے حالات اور زندگی کے تلخ تجربوں کی وجہ سے خود اعتمادی میں کمی آجاتی ہے۔جن کے پاس ڈگریاں ہے لیکن اعتماد کی کمی ہے اور وہ لوگ زندگی میں کامیاب نہیں ہو پاتے ہیں اور ایسے لوگ بھی لاکھوں میں ہیں جن کے پاس بڑی ڈگریاں نہیں ہے البتہ ان کے پاس کامیابی حاصل کرنے کا بڑا ہتھیار ہوتا ہے یعنی ان کے پاس اعتماد ہوتا ہے ۔

آئیے  اب  ان  دو بنیادی وجوہات ہو جاننے کی کوشش کرتے ہیں جس وجہ سے انسان میں خود اعتمادی کی کمی ہو سکتی ہے۔

والدین کی جانب سے بچپن میں کوتاہیاں

جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں کچھ والدین بچوں کواتنی اہمیت نہیں دیتے ۔یعنی اُن کی چھوٹی چھوٹی بات کو نظرانداز کردیتے ہیں ،یاٹوک دیتے ہیں۔اکثر کی بات ہی دبادی جاتی ہے۔

   اردگردکا ماحول

اکثر بچوں کواردگرد کاایسا ماحول ملتا ہے جدہران کوداد اور حوصلہ افزائی کی بجائے ہر وقت لعن طعن کیا جاتا ہے۔ان کے ہر پہلو پر نکتہ چینی کی جاتی ہے۔جس سے ان کے دماغ میں اپنے لیے احساس کمتری کا عنصر پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ پختگی اختیار کرجاتا ہے۔بھری محفل میں گفتگو کے دوران ٹوکنا اور ہر کام سے کیڑے نکالنا والا ماحول بھی خوداعتمادی میں کمی کاباعث بنتا ہے۔

  درس وتدریس کے شعبے کو اپنا لیں

اب درج ذیل وہ چند نکات ہیں، جن سے خوداعتمادی پیدا کی جاسکتی ہے۔ ان پر عمل پیراہوکر نہ محض چھوٹا بلکہ بڑا فرد بھی اپنے اندر اعتماد پیدا کرسکتاہے۔

بلاناغہ ایک موضوع پرتقریر کیجیے

چاہے آپ اکیلے ہی کیوں نہ ہوں ،کوئی بھی ایک موضوع جس پر آپ وسیع مطالعہ رکھتے ہیں وہ چاہے سوشل،اسلامی،تاریخی یاادبی ہو اس پر اظہار خیال کیجیے۔اور زیادہ سے زیادہ اس پر گفتگو کیجیے۔چاہے آپ اکیلے گھر میں ہوں۔بلاناغہ اس کو کیجیے۔اگر گھر میں کوئی سامنے بیٹھنے یا سننے والا نہیں تو آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر بولیے اوربلند لہجے میں تقریر کیجیے۔

اظہارخیال کی عادت اپنائیے

جو بھی ذہن میں ہو اس پر اظہار خیال دوسروں سے کریں۔پہلے ان افراد سے کیجیے جو آپ کی ذات کے بہت قریب ہیں تاکہ بعدازاں ہر ایک کے سامنے کرنے میں آسانی ہو۔یعنی کوئی بات جس کے متعلق علم نہ ہو یا کچھ ایسا جس پر کسی سے کہنا ہی اس کی مزید گرہیں کھولے اس پر بلاجھجھک اظہارخیال کیجیے۔

کون کیا سوچے گا،  اس سوچ کو نکال دیں

ہمارا ایک نفسیاتی المیہ ہے کہ لوگ کیا کہیں گے ۔اگر آپ کامیابی چاہتے ہیں تو اس جملے کو ذہن سے نکال دیجیے بلکہ اس جملے کی جگہ اس جملے کو ذہن نشین کیجیے کہ ہمیں تخلیق کرنے والا کیا کہے گا۔اس جملے سے بھی انسان کی ذات مطمن اور پراعتماد رہے گی۔جب آپ ذہن سے یہ نکال دیں گے تو آپ کھل کر بول سکیں گے۔آپ کے ذہن میں جو آئے وہ بولیے بلکہ اپنے آپ کو اس سوچ میں نہ رکھیے۔

  خود اعتمادی کی کمی

لوگوں میں بڑھ چڑھ کر شریک گفتگو بنیں

اکثر تہواروں یا کہیں بھی ایک ہجوم یکجا ہوتا ہے وہاں کسی بھی موضوع پر گفتگو ہو آپ گفتگو میں لازمی شریک ہوں بلکہ ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار شائستگی سے کیجیے۔

گروپ بناکر بات کریں

والدین ،بہن بھائیوں یا دوستوں کے ساتھ گروپ بنا کر کسی بھی موضوع پر بات چیت کیجیے جس سے ذہن کے کئی سست گوشے بھی شعور کی رسی پکڑ لیتے ہیں اور آپ کو اعتماد بھی بخشتےہیں۔

سوال کرنے کی عادت ڈالیں

ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے سوال کرنے والوں کو اکثر اچھا نہیں سمجھا جاتا کیونکہ کچھ سوالات میں بغاوت مخفی ہوتی ہے اور کچھ میں مزاحمت ،لیکن سوال کرتے رہنا بھی خوداعتمادی کا سب سے بڑا جز ہے۔

4/5 - (5 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

اس تحریر کی لکھاری ، پی ایچ ڈی اسکالر ہیں اور تعلق سیالکوٹ سے ہے جس کی مٹی ادبی حوالے سے بہت زرخیز ہے۔ پیشہ ورانہ طور پر تدریس کے شعبے سے منسلک ہیں مگر ساتھ ہی ایڈیٹر"نقش فریادی" ،کالم نگار ،افسانہ نگاراور مصنفہ ہیں۔اس کے علاوہ چند اخبارات اور میگزین کی شعبہ انچارج رہ چکی ہیں۔