حوصلہ افزائی

ہمارے دکھ بھی بالکل نمک کی طرح ہوتے ہیں

کہتے ہیں کہ ایک نوجوان اپنی زندگی کے معاملات سے کافی پریشان تھا۔ مسائل بے شمار تھے لیکن حل کوئی نظر نہ آتا تھا۔ مایوسی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی کہ ایک دن اُس کی ایک درویش  سے ملا قات ہو گئی۔ اُس نے درویش کو اپنا حال کہہ سنایا۔ اس اُمید پر کہ شاید کوئی دعا ہی کام آ جائے۔ وہ درویش سے کہنے لگا کہ بہت پریشان ہوں۔ یہ دکھ اور پریشانیاں اب میری برداشت سے باہر ہیں۔ ایسا لگتا ہے شاید میری موت ہی مجھے ان غموں سے نجات دلا سکتی ہے۔ یا تو ان مسائل کا کوئی حل تجویز فرما دیں یا پھر دعا کر دیں کہ کوئی صورت نکل آئے۔

درویش نے اس کی بات پوری توجہ سے سنی اور پھر مسکرا کر کہا

"پریشان نہ ہو، جاؤ اور نمک لے کر آؤ۔”

نوجوان درویش کا یہ جواب سن کر پہلے تو حیران ہوا اور سوچنے لگا کہ میری بات کا بھلا نمک سے کیا تعلق، پر پھر بھی گیا اور نمک لے آیا۔

پھر درویش نے اُس سے کہا

"پانی کے ایک گلاس میں ایک مٹھی نمک ڈالو اور اسے پی لو۔”

نوجوان کو ایک بار پھر شدید حیرت ہوئی لیکن مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق مٹھی بھر نمک گلاس میں ڈالا اور ایک ہی سانس میں پی گیا۔ جب پی لیا تو درویش نے اُس سے پوچھا

"اب یہ بتاؤ، اس کا ذائقہ کیسا لگا ؟”

وہ نوجوان تھوكتے ہوئے بولا

"بہت ہی خراب، ایک دم کھارا۔”

درویش ایک بار پھر مسکرایا اور سامنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا

"اب ایک مٹھی نمک لے کر میرے ساتھ اس سامنے والی جھیل تک چلو۔” نوجوان نے حامی بھر لی اور اُس کے ساتھ چل پڑا۔

صاف شفاف پانی سے بنی اس جھیل کے سامنے پہنچ کر درویش نے اُس سے  کہا

چلو اب اس مٹھی بھر نمک کو جھیل کے پانی میں ڈال دو اور پھر اس جھیل کے پانی سے ایک گلاس بھر کر پی لو۔

نوجوان نے مٹھی میں موجود نمک جھیل کے پانی میں ڈالا اور پھر ایک گلاس بھر کر پانی پینے لگا۔ جب پی چکا تو درویش نے اُس سے پوچھا

 "اب بتاؤ اس کا ذائقہ کیسا ہے، کیا اب بھی تمہیں یہ کھارا اور خراب لگ رہا ہے؟”

نوجوان درویش کا مطلب اور اس سب کا مقصد سمجھنے سے قاصر تھا، اس لیے اُلجھتے ہوئے بولا

  تنہا رہنا اکثر اچھا بھی ہوتا ہے۔

"نہیں، یہ تو بالکل کھارا نہیں بلکہ میٹھا ہے اور بہت اچھا ہے۔ لیکن یہ سب کرنے کا مطلب کیا ہے؟ میں سمجھ نہیں پایا، اگر آپ سمجھا دیں تو میری مشکل آسان ہو جائے گی۔”

اُس کی بات سن کر درویش نوجوان کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا

اِس سب کا مطلب تمہیں یہ سمجھانا ہے کہ ہمارے دکھ بھی بالکل اسی نمک کی طرح ہوتے ہیں۔ تم نے دیکھا کہ جتنا نمک گلاس میں ڈالا گیا تھا اتنا ہی جھیل میں ڈالا گیا ہے۔ مگر گلاس کا پانی کھارا اور کڑوا ہو گیا جبکہ جھیل کے پانی کو مٹھی بھر نمک سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسی طرح انسان بھی اپنے اپنے ظرف کے مطابق تکلیفوں کا ذائقہ محسوس کرتے ہیں۔ جن کا ظرف بڑا ہوتا ہے اُنہیں حالات کی تنگیوں اور راستے کی رکاوٹوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنا آگے بڑھتے رہنے کا سفر ہر قسم کے حالات میں جاری و ساری رکھتے ہیں اور ایسے لوگ ہی زندگی میں کامیابی کے زینے طے کرتے کرتے ایک دن ایک ایسی منزل پر پہنچتے ہیں جس پہ دنیا رشک کرتی ہے۔

اس کے برعکس جن کا ظرف چھوٹا ہوتا ہے، اُن کی زندگی اور اُن کے کردار پر حالات اور مشکلات اسی طرح اثر انداز ہوتے ہیں، جیسے یہ مُٹھی بھر نمک ایک گلاس کے پانی پر اثر انداز ہوا ہے۔ کڑواہٹ سارے میں اس طرح گھل گئی کہ پینے لائق بھی نہیں رہا۔ ظرف چھوٹا ہو تو زندگی بھی ایسے اجیرن ہو جاتی ہے کہ یوں لگتا ہے جیسے جینے لائق ہی نہیں رہی۔ جیسے آج کل تمہیں لگ رہی ہے۔ کیوں، ٹھیک کہہ رہا ہوں نا میں؟

نوجوان جو محویت سے درویش کی باتوں میں کھویا ہوا تھا، اُن کے اچانک پوچھے گئے سوال پر ایک دم چونکا اورپھر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا

جی بالکل، مجھے ان دنوں اپنی زندگی کا دائرہ بالکل تنگ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے میرے حصے کے مواقع کوئی اور لے گیا ہے۔ میرے لیے کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ مجھے کیا کرنا چاہیے؟

درویش اُس کا جواب سن کر ایک بار پھر مسکرائے اور پھر گویا ہوئے

جب تمھیں کوئی دکھ ملے تو خود کو بڑا کر لو، گلاس مت بنے رہو بلکہ جھیل بن جاؤ۔ تاکہ یہ تلخیاں تم پہ اثر انداز نہ ہو سکیں، تمہاری زندگی میں کڑواہٹ نہ گھول سکیں۔ اور ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا، جس چیز پہ دھیان دو گے، وہ چیز  دوسری تمام چیزوں سے نمایاں نظر آنے لگے گی۔ مشکلات اور مسائل پہ نظر رکھو گے تو وہ اتنے بڑے نظر آئیں گے کہ اُن کے ساتھ موجود آسانی تمہیں نظر ہی نہیں آئے گا۔ اس لیے ہر چیز پر صرف اتنا ہی دھیان دو، جتنا دینا چاہیے۔ بلاوجہ کسی چیز کو سر پہ سوار نہ کرو۔ تاکہ مسائل کے ساتھ موجود حل کو بھی دیکھ سکو۔ کیا سمجھے؟

  خود کو سیکھنے پر آمادہ رکھیں

نوجوان درویش کی بات کو پوری طرح سمجھتے ہوئے بولا

یہ کہ جب جب زندگی میں حالات کی، مشکلات کی کڑواہٹ گھلنے لگے تو جھیل بن جانا ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اگر ہم اپنا ظرف بڑا نہیں کریں گے تو پھر وہ کڑواہٹ زہر بن کر زندگی میں اس طرح گھل جائے گی کہ ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ مسائل چاہے جتنے بھی بڑے ہو جائیں، زندگی سے بڑے نہیں ہوتے۔ اس لیے کبھی بھی مسائل سے گھبرا کر یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ زندگی ختم ہو گئی۔ زندگی آخری سانس تک آپ کو موقع دیتی رہتی ہے۔ بس یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ مسائل کے خاردار راستے سے اپنے لیے راہ کس طرح ہموار کرتے ہیں۔ راستے کے کانٹوں سے گھبرا کر ایک جگہ رُک جائیں گے تو منزل تک کیسے پہنچیں گے۔ منزل پانے کے لئے سفر تو کرنا ہی پڑے گا۔ پھر چاہے راہ میں کانٹے آئیں یا پتھر، اپنے لیے راستہ خود ہموار کرنا پڑے گا اور پھر آخر کار کامیابی کی منزل آپ کی منتظر ہو گی۔

5/5 - (2 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

اس تحریر کی مصنفہ اردو ادب میں ماسٹر کرنے کے بعد ایک نجی تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اپنے لکھنے کا با قاعدہ آغاز سال 2021 سے کیا اوراب تک کئی میگزینز میں ان کی تحاریر شایع ہو چکی ہیں۔