کردار سازی

اپنے محرموں کے سوا کسی اور پر بھروسہ نہ کریں

وہ اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتی تھی۔ اپنے نصیب پر کبھی ناشکری نہیں کرتی تھی۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود بھی وہ دوسری لڑکیوں کی طرح بے جا شوق نہیں پالتی تھی۔ جو کچھ مِل جاتا اپنے رب کا شکر ادا کر کے قبول کر لیتی۔

اُس کے امی بابا کو اپنی چھ اولادوں میں سے اُس پہ سب سے زیادہ مان تھا، اور وہ ہر وقت دعا کیا کرتی تھی کہ یہ مان اُس کی سانسوں کی ڈوری ٹوٹنے تک یونہی سلامت رہے۔ سب کچھ ٹھیک سے چل رہا تھا، لیکن قدرت کو شاید اُس کا امتحان لینا مقصود تھا۔

وہ جہاں پارٹ ٹائم جاب کرتی تھی، وہاں تمام مَیل کولیگز کے ساتھ اُس کا واسطہ کبھی سلام دعا سے زیادہ نہیں بڑھا تھا۔ ہاں البتہ فی میل کولیگز کے ساتھ اُس کی اچھی خاصی دوستی تھی۔

ایک دِن اُس کے ایک سینئر (لڑکے) نے اُس کی دوست  سے اُسکا واٹس ایپ نمبر لے کر اُسے میسج کیا کہ وہ اُس کے کردار کی پاکیزگی اور ایمان کی پختگی سے بے حد متاثر ہے، اور اس کے شرعی پردہ کرنے کی وجہ سے دِل میں اُس کے لیے بہت احترام رکھتا ہے اور اُس سے دوستی کرنے کا خواہاں ہے

پہلے تو وہ بہت حیران ہوئی  کیونکہ ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اُس کے کسی مَیل کولیگ نے اُسے یوں میسج کیا تھا، اور ساتھ ہی یہ بات بھی اُسے پریشان کر رہی تھی کہ اُسے اُس کا نمبر کیسے مِلا۔

خیر، اُس نے جواباً معذرت کرتے ہوئے کہا کہ

 اِس قسم کی دوستی جائز نہیں ہے”۔

اِس پر لڑکے نے اُس کی سوچ کہ سراہتے ہوئے کہا کہ

 اُسے ایسی سوچ پہ فخر ہے، اور اِسی سوچ نے ہی تو اُسے اُس کا گرویدہ بنا لیا ہے۔

اُس نے پھر سے معذرت کرتے ہوئے جواب دیا کہ وہ اپنے تمام میل کولیگز کو اپنے بھائیوں جیسا سمجھتی ہے، اور جس دوستی کے وہ خواہاں ہیں، وہ ممکن نہیں۔

وہ لڑکا کسی نہ کسی طرح اُس سے رابطے میں رہنا چاہتا تھا۔ جب ایک داؤ نہ چلا، تو اُس نے دوسرا پتّا پھینکا۔ یہ کہہ کر کہ وہ بھی بہنوں کی طرح اُس کی عزت کرتا ہے، اور چاہتا ہے کہ اُسکی سگی بہنیں بھی اُسی کی طرح باپردہ زندگی گزاریں اور رابطہ کرنے کا مقصد یہ بتایا کہ وہ اُس سے رہنمائی لینا چاہتا ہے کہ  اپنے گھر کی خواتین کو حجاب اور پردے کی طرف کیسے مائل کرے، یعنی کس طرح وہ اپنی بہنوں کو شرعی پردے کا پابند بنا سکتا ہے؟

 یہ پتّا کام کر گیا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر اُس کی وجہ سے کسی بھٹکے ہوئے کو ہدایت مِل سکتی ہے، تو اس میں کچھ غلط نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو ایک کارِ خیر ہی ہے۔ اُس نے اس کام میں اُس لڑکے کی مدد کرنے کی ہامی بھر لی۔

وہ لڑکا وقتاً فوقتاً اُسے میسج کرتا رہتا۔ اُس کے ہر سٹیٹس پر خوب داد دیتا۔ مگر اپنے مذکورہ مقصد کے متعلق کوئی بات نہ کرتا۔

جب سے اُس نے اُس لڑکے سے بات کرنے کی ہامی بھری تھی، تبھی سے وہ بےچین رہنے لگی تھی۔ نمازیں پہلے والے خشوع و خضوع سے خالی ہونے لگی تھیں۔ گو کہ وہ ہر بار اُس لڑکےکو بھائی کہہ کر ہی مخاطب کرتی تھی مگر پھر بھی اُس کا ضمیر بار بار اُسے کچوکے لگاتا رہتا تھا۔

  ملازمت کے ساتھ سائیڈ بزنس کیسے کیا جاے

ایک رات اِسی بے چینی کے سبب اُسے نیند نہیں آ رہی تھی۔ وہ فیسبک سکرولنگ کرنے لگی کہ یکدم اس کی نظریں ایک تحریر پر جم سی گئیں۔

وہ تحریر ایک حدیث کی تشریح تھی۔ جس کا خلاصہ کچھ یوں تھا کہ

” مسلمان مستورات کو یہ زیب نہیں کہ اپنے محرموں کے سوا کسی اور پر بھروسہ کریں یا اُنھیں اپنا محافظ گردانیں۔ بیشک حقیقی محافظ وہی ہیں، جو اللہ پاک نے عطا فرمائے ہیں”۔

یہ تحریر پڑھ کر اس کی آنکھیں شدّت جذبات سے نم ہو گئیں، اور اُسے اپنی کوتاہی کا شدت سے احساس ہوا۔ ۔

وہ جو اپنے ضمیر کی پکار کو یہ کہہ کر فراموش کرانے کی کوشش کر رہی تھی کہ بہن بھائی کے طور پہ بات کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اُس کی ساری دلیلیں، سبھی تاویلیں ایک پل میں بے وقعت ہو گئی تھیں، اور اب وہ رات کی تاریکی میں بے آواز، زار و قطار روتے ہوئے اپنے رب سے معافی مانگ رہی تھی۔

اُسے اپنے امی بابا کا خود پر بھروسہ اور مان رہ رہ کر یاد آ رہا تھا۔ وہ خود سے پوچھ رہی تھی کہ وہ اپنے پیارے اللہ پاک کی نافرمانی کیسے کر سکتی ہے؟

 اپنے بابا کا مان بھلا کیسے توڑ سکتی ہے؟

اپنی امی کی تربیت پر سوال اُٹھانے کا موقع کیسے دے سکتی ہے دنیا کو؟

اپنی چھوٹی بہنوں کو ایک غلط راہ کیسے دِکھا سکتی ہے؟

نہیں، وہ یہ نہیں کر سکتی۔ کبھی نہیں کر سکتی۔ اور وہ یہ سب ہرگز نہیں کرے گی۔ اُس کے لیے تو اُس کی خشوع سے بھر پور نمازیں اور بابا کا مان دنیا کی سب سے بڑی دولت تھیں۔ وہ ایک حرام تعلق کے لیے یہ سرمایہ کبھی نہیں گنوائے گی، کبھی نہیں۔

اُس نے فوراً موبائل اُٹھایا اور اُس لڑکے کا نمبر بلاک کرنے کے بعد ڈیلیٹ کر دیا۔

اس کے بعد وہ آنسو پونچھتے ہوئے اُٹھی۔ وضو کر کے جائے نماز بچھائی اور اپنے رب کا شکر ادا کرنے کے لیے دو رکعت نفل کی نیت باندھی۔

کیا قیام، کیا رکوع اور کیا سجود، مسلسل اُس کی آنکھوں سے آنسو بہتے رہے۔ مگر یہ آنسو غم کے نہیں، خوشی کے آنسو تھے۔ کیونکہ اُس کے رب نے اُسے گمراہوں میں شامل ہونے سے بچا لیا تھا۔ اُس کے بابا کا مان ٹوٹنے سے بچ گیا تھا۔ اُس کی امی کی تربیت پر سوال اُٹھانے کا موقع اُس نے کسی کو نہیں دیا تھا۔ اُس کا فخر، اُس کا حجاب سلامت تھا۔

یہ دو رکعتیں اُس نے ایسے پڑھی تھیں کہ جیسے اُس کا رب اُس کے سامنے بیٹھا ہو اور وہ اُس کے سامنے اپنی ہر ایک خطا کا اقرار کر کے معافی کی سند لے رہی ہو۔ وہ خوش تھی کہ اُس کی نمازوں کا خشوع و خضوع اُسے واپس مِل رہا تھا۔ اُس کا ضمیر اب مطمئن تھا۔

  ضرورت اور خواہش کے درمیان فرق

جائے نماز پر بیٹھے بیٹھے ہی اُس نے اپنے رب سے اور اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ کبھی اِس دلدل میں قدم رکھنے کی کوشش نہیں کرے گی۔

یہ ایک نہیں، دو نہیں، تقریباً ہر دس میں سے آٹھ لڑکیوں اور لڑکوں کی کہانی ہے۔ اس کو تو پھر بھی وقت رہتے اپنی کوتاہی کا احساس ہو گیا لیکن ہر آٹھ میں سے سات لڑکیوں کو احساس نہیں ہو پاتا، اور جب تک احساس ہوتا ہے، تب باقی کچھ نہیں بچا ہوتا۔

نازک عمر میں جذبات اور خواہشات کے ہاتھوں مغلوب ہو کر نہ جانے کتنے ہی نوجوان کتنی ہی لڑکیوں کی زندگیاں خراب کر رہے ہیں۔ بچی پھنسا لینا، چار چار، یا پانچ پانچ لڑکیوں کہ ساتھ بیک وقت تعلق بلکہ ناجائز تعلق قائم رکھ کے نوجوانوں کو لگتا ہے کہ جیسے اُنہوں نے کوئی بہت بڑا تیر معرکہ سر کر لیا ہے۔ یاد رکھیں، چار پانچ لڑکیوں کو پھنسا لینا آپ کی عظمت و برتری کی علامت نہیں ہے، بلکہ آپ کی ذہنی و اخلاقی پستی کی نشانی ہے۔ اقبال نے آج کے نوجوان کو شاہین کہہ کر مخاطب کیا لیکن آج کا نوجوان شاہین کے بجائے گِدھ بن بیٹھا ہے۔ جسے حرام کی ایسی لت لگ گئی ہے کہ حوس بڑھتی جا رہی ہے اور وہ سیر نہیں ہو رہا۔

آج کے نوجوانوں سے  میں دست بستہ یہ  گزارش کروں گی کہ خدارا کسی بنت حوا کی زندگی برباد کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔ آپ کی وقتی لذت تو پل دو پل میں ختم ہو جائے گی لیکن اُس کے پاس کچھ بھی نہیں بچے گا۔ اُس کے والدین جیتے جی مر جائیں گے۔

لڑکیوں سے بھی میں یہ کہوں گی کہ کسی نامحرم کو اپنا محافظ سمجھنے کی غلطی کبھی نہ کریں۔ دنیا اخلاقی پستی کہ اُس دہانے پہ آن کھڑی ہے کہ محرم رشتوں کا تقدس بھی پامال ہو رہا ہے۔ ایسے میں نامحرم پہ بھروسہ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کوئی لاکھ کہے کہ آپ کے لیے چاند تارے توڑ لاؤں گا یا آپ کو حاصل کرنے کے لیے دنیا سے لڑ جاؤں گا۔ خدارا اُس کا اعتبار نہ کریں۔ یہ صرف اور صرف ایک دھوکا ہوتا ہے جو وعدوں اور قسموں کی خوبصورت پیکنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ اپنی آنکھیں پوری کھولیں اور حقیقت کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کریں اس سے پہلے کہ پانی سر سے اوپر ہو جائے۔

5/5 - (14 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

اس تحریر کی مصنفہ اردو ادب میں ماسٹر کرنے کے بعد ایک نجی تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اپنے لکھنے کا با قاعدہ آغاز سال 2021 سے کیا اوراب تک کئی میگزینز میں ان کی تحاریر شایع ہو چکی ہیں۔