کردار سازی

کسی کی بھی تنقید پر بددل مت ہوں

عربی کی ایک روایت ہے کہ مینڈکوں کا ایک گروہ کہیں جا رہا تھا کہ اچانک ان میں سے دو بے دھیانی میں ایک گڑھے میں جا گرے۔باہر والے مینڈکوں نے دیکھا کہ گڑھا ان دو مینڈکوں کی استطاعت سے زیادہ گہرا ہے تو انہوں نے اوپر سے کہنا شروع کر دیا”ہائے افسوس تم اس میں سے باہر نہیں نکل سکو گے کوششیں کر کے ہلکان مت ہونا،ہار مان لو اور اپنی موت کا انتظار کرو”۔ ایک مینڈک کا یہ سب کچھ سن کر دل ڈوب ہی گیا ،اس نے ٹوٹے دل کے ساتھ چند کوششیں تو کیں مگر اس جان لیوا صدمے کااثر برداشت نہ کر پایا اور واقعی مر گیا۔

دوسرے کی کوششوں میں شدت تھی اوروہ جگہ بدل بدل کر جمپ لگاتے ہوے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا اوپر والے مینڈک پورے زور وشور سے سیٹیاں بجا کر آوازیں کستے ہوے اسے منع کرنے میں لگے ہوے تھے کہ مت ہلکان ہو،موت تیرا مقدر بن چکی ہے لیکن مینڈک نے اور زیادہ شدت سے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا سارے مینڈک اس کے گرد جمع ہو گے اور پوچھنا شروع کر دیا کہ وہ باہر کیسے نکلا تو سب کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہ والا مینڈک تو کانوں سے بہرہ تھا مینڈک سارا وقت یہ ہی سمجھ کر باہر نکلنے کے لیے اپنا سارا زور لگاتا رہا تھا کہ باہر کھڑے ہوے سارے مینڈک اس کے خیرخواہ اور دوست ہیں جواس کی ہمت بندھوا رہے ہیں اور جوش دلا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ سارے اس کی ہمت توڑنے اور باہر نکلنے کے عزم کو ختم کرنے کے لیے کھڑے تھے۔

یہ مینڈک کی حکایت جس نے بھی لکھی ہے کمال لکھی ہے اصل میں اس کے مخاطب انسان ہیں اس میں سبق انسانوں کے لیے ہے اگر ہم اپنی عملی زندگی میں دیکھیں تو کام کے آغاز پر زیادہ لوگ ہمت توڑنے والے ہی ملتے ہیں جو کہتے ہیں نہیں نہیں تم تو نہیں کر سکتے فلاں نے یہ کام کیا کچھ فائدا نہیں ہوا یہ یہ نقصان ہو گیا شروع نہ کرنا۔لیکن جب ہم کامیاب ہو جاتے ہیں پھر باتیں بدل جاتی ہیں ۔

  کامیاب لوگوں کی چند مشترکہ عادات

کامیابی کی طرف جانے والا  رستہ ہم نے اکیلے ہی طے کرنا ہوتا ہے ۔ہجوم ہمیں منزل پے ملتا ہے ۔ایسے ہی پیارے دوستوں آپ نے اپنے کام کے ساتھ مقصد کے ساتھ مخلص ہو جانا ہے۔ اپنی پرچھائی کا ساتھ لینا ہے۔ لوگوں کی باتوں سے دوسرے والے مینڈک کی طرح بہرہ ہو جانا ہے ۔مسلسل محنت جاری رکھنی ہے۔ بہت سے لوگ پہلے مینڈک کی طرح سارا دھیان دوسروں کی منفی باتوں کی طرف لگا کر حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں ان میں کام کرنے کی انرجی باقی نہیں رہتی وہ دل برداشتہ ہو جاتے ہیں ۔جب ہم پریشان ہو جاتے ہیں تو وہ انرجی جو ہم نے محنت پے لگانی ہوتی ہے کام کرنا ہوتا ہے وہ ساری انرجی منفی سوچ لے جاتی ہے جس سے بہت نقصان ہوتا ہے کامیابی کا تناسب کم ہو جاتا ہے۔

جب میرے سسر کا  انتقال  ہوا تو اس کے ایک ہفتہ بعد میرا پیپر تھا ۔میں بہت پریشاں تھی کہ ایسی صورتحال سے سسرال سے کیسے جاؤں ۔بہت سے لوگ افسوس کے لیے  آ رہے ہیں کام بھی زیادہ ہے ۔کیسے جاؤں  کہ لوگ باتیں کریں گے۔مجھے دو دن نیند نہیں آئی میرے خاوند نے پھر سمجھایا کہ ابو کو صرف تمہارا ایصال الثواب پہنچنا ہے  تو وہ ادھر سے بھی پہنچ جائے گا تم جاؤ اور ہر بات زہن سے نکال کر تیاری کرو۔ وقت گزر جانا ہے ۔  باتیں یاد نہیں رہتی میں ۔ تو میں پھر امی گھر چلی گئی اور پیپر دیے۔ تب یقیناً میرے پیچھے باتیں ہوئی ہوں گی ۔ہر آنے والے نے بھی پوچھا ہو گا۔

  نصیحت کرتے ہوئےعزت نفس کا خیال رکھیں

وقت گزر گیا تھوڑا سا آگے بڑھا تو آج کسی کو یاد بھی نہیں۔ لیکن تب اگر میں لوگوں کو دیکھتی تو میرا جو نقصان ہونا تھا وہ مجھے آج تک یاد ہونا تھا۔میں نے غور کیا ہے تنقید کرنا حوصلہ چھیننا ہمارے معاشرے کی مجموعی سوچ بن چکی ہے اور ایسا کرنے والے اگلے ہی لمحے اپنے الفاظ بھول جاتے ہیں پھر ہم کیوں ان کو یاد رکھ کے اپنا حوصلہ توڑیں ہمیں بھی ہر منفی بات اسی وقت اپنے زہن سے نکال دینی چاہیے اور اپنے مقصد پے فوکس کرنا چاہیے ۔

لوگوں  کی تنقید ،کھینچا ہوا اعتماد ،اڑایا گیا مذاق،کی گئی حوصلہ شکنی اگلے ہی لمحے بھول جاتے ہیں بعض دفعہ وہ انکی اپنی رائے ہوتی ہے ہم سے کوئی ذاتی بغض نہیں ہوتا اس لیے پیارے دوستوں زندگی میں کسی کی بھی تنقید پر بددل مت ہوں بلکہ اس تنقید کے نشتر کی سیڑھیاں بنا کر کامیابی کی منزل کی جانب بڑھتے رہیں۔

3.2/5 - (5 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

اہلیہ محمد صدیق

اس تحریر کی مصنفہ ہاؤس وائف ہیں اور اپنے امور ِ خانہ داری کے ساتھ اچھا پڑھنے اور لکھنے کا شوق بھی رکھتی ہیں ۔ مختلف تحریری مقابلہ جات میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ انعامات بھی حاصل کرتی رہتی ہیں۔