کردار سازی

نئی نسل کی تعلیم و تربیت

نوجوان اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اچھی ملازمت حاصل کرنے خواہش مند ہوتے ہیں، اس مقصد کے حصول کے لیے بعض اوقات اخلاقیات کی حد بھی پار کرجاتے ہیں۔ خود غرضی، مفاد پرستی اور لالچ کے جال میں پھنستے چلے جاتےہیں۔ حالاں کہ حقیقی تعلیم محض چند مضامین کی تدریس تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ تربیت اس کا ناگزیر حصہ ہے۔ ایسی تعلیم، جو بہترین تربیت کے ساتھ حاصل کی جائے، نہ صرف انسان کے دل کی آنکھیں کھول دیتی ہے، بلکہ انسانی شخصیت میں حقیقی نکھار بھی پیدا کرتی ہے۔

طبیعت کے سلجھاؤ،اس کے ارادوں،اس کے اندرمدلل اور مؤثر انداز گفتگو اور اس کے طرزِ فکر میں وسعت و گہرائی اور مثبت تبدیلی پیدا کرتی ہے۔نوجوان کی شخصیت میں سائنٹفک طرزفکر کا ارتقاء انسانی شخصیت کے مجموعی ارتقاء ہی کاایک حصہ ہے،جہاں ایک طرف اس کا گہراتعلق تعلیم وتربیت سے ہے ،وہیں دوسری طرف بہترسماجی ماحول،گھر اور پڑوس،گھریلواور خاندانی روایات،حلقۂ احباب وغیرہ سے بھی ہے جن سے اس کارات دن سابقہ پڑتا ہے۔ یہی چیزیں انسان کی سوچ میں مثبت اور غیر جانبدارانہ انداز پیدا کرتی ہیں۔

نئی نسل کی تعلیم و تربیت پر کس قدر توجہ دی جارہی ہے،ان کے سوچنے سمجھنے کی کس قسم کی صلاحیت پروان چڑھ رہی ہے، اس کا اگر انصاف پسندی کے ساتھ جائزہ لیاجائے تو یہ دیکھ کر افسوس ہی ہوتا ہے، اس کی مثال کچھ ایسی ہے کہ آپ کسی ایسی فرنچ فرائز کی دکان پر کھڑے ہوجائیں، جہاں اٹھارہ سال تک کی عمر کے بچے آتے ہوں اور ارد گرد رکھی کرسیوں پر بیٹھ کر کھاتے ہوں، اور آنے والے بچوں کی زبان ملاحظہ فرمالیں، بالخصوص وہ طلبہ جو آٹھویں سے بارہویں جماعت میں پڑھتے ہیں۔ یہی بچے جب اسکول اور کالج جاتے ہیں تو وہاں بھی اپنے ہم جماعتوں سے بدزبانی اور بدگوئی کرتے ہیں۔

  کامیاب لوگوں کی پانچ بری عادات

گزشتہ پانچ سالوں میں اس قبیح عادت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ نئی نسل بتدریج تعلیم کے میدان میں آگے آرہی ہے اور نوجوانوں میں تعلیم کا گراف پہلے کے مقابلے میں بڑھ رہاہے، مگر اس تعلیم کا جو نتیجہ خود اس نسل پر اوراس معاشرے اور ملک پرمرتب ہونا چاہئے تھا وہ سامنے نہیں آرہا۔ہمارے نوجوانوں میں عام طور پر سوچنے اور سمجھنے کا وہ ا نداز نہیں پایاجاتا، جسے معقولیت پر مبنی ، مثبت یا سائنٹفک کہاجاسکتا ہو، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بعض دفعہ نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی بعض ایسی حرکتیں کر بیٹھتے ہیں جن کی ان سے توقع نہیں کی جاتی۔

  خود پر ترس کھانے کی عادت

آج کے تعلیمی مراکز، خود والدین اور خاندان کے ذمے داران و سرپرستان اپنے بچوں کی تربیت پر ویسی توجہ نہیں دیتے جیسی دینی چاہئے،اس لئے بعض نوجوان بڑی سے بڑی ڈگری حاصل کرلینے اور اعلیٰ سے اعلیٰ سرکاری یا غیر سرکاری منصب پر پہنچ جانے کے باوجود ذہنی اور فکری اعتبار سے نہایت کورے اور نابالغ ہوتے ہیں۔

اگر نوجوانوں اور ملک و قوم کی تقدیر کو سنبھالنے والی نئی پیڑھی کی درست ذہنی و فکری تربیت پر دھیان نہیں دیا تو پھر آنے والے دنوں میں موجودہ حالات سے بھی زیادہ برے حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ سوچ میں معقولیت اور منطقی طرز فکرکی ضرورت زندگی اور عمل کے ہر شعبے میں ہے اور اس ضرورت کو محسوس کرنا ہوگا جو ہمارے لئے اور ہمارے گرد و پیش کے لئے خیر اور بھلائی کا باعث ہو۔

4.5/5 - (2 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔