قارئین کو عنوان یقیناً عجیب و غریب لگا ہو گا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھلا ہمیں اپنے پیچھے شارک لگائے رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ تو میں اس بات کی وضاحت کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی کہانی بیان کرنا چاہوں گی۔
کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں سمندر کے کنارے واقع کسی قصبے کے لوگوں کو تازہ مچھلیاں کھانے کا بڑا شوق تھا۔ یہ اُن کی سب سے مرغوب غذا تھی۔ روزانہ کی بنیاد پر سمندر کنارے ماہی گیروں کا رش لگا ہوتا۔ تازہ تازہ مچھلیاں پکڑی اور بیچی جا رہی ہوتیں۔ لوگ تازہ تازہ مچھلی خریدتے اور خوب لطف لے کر کھاتے۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مچھلیوں نے پکڑے جانے کے خوف سے سمندر کے اُس کنارے کی طرف آنا چھوڑ دیا۔ ماہی گیر جال بچھائے مچھلیوں کے پھنسنے کا انتظار کرتے رہتے لیکن بمشکل ایک دو مچھلیاں ہی پکڑ پاتے۔ اس سے جہاں ماہی گیروں کا کاروبار ٹھپ ہونے لگا، وہیں قصبے کے لوگ بھی اپنی پسندیدہ غذا سے محروم ہونے لگے۔ باہمی مشورے سے اس مسئلے کو حل کرنے کی ترکیبیں سوچی جانے لگیں۔ بالآخر سب ماہی گیروں نے مل کر یہ حل نکالا کہ ایک سمندری جہاز نما بڑی کشتی بنائی گئی، جس پر سب ماہی گیر سوار ہو کر سمندر میں کافی آگے تک جاتے اور مچھلیاں پکڑ کر لے آتے۔ اس طرح مچھلیوں کی پیداوار میں اضافہ تو ہوا لیکن ایک مسئلہ سب ماہی گیروں کی پیش آیا۔ وہ یہ کہ بڑی کشتی کو سمندر میں دور تک جانا پڑتا تھا، پھر واپس آنے میں اچھا خاصا وقت لگ جاتا۔ اس طرح ساحل تک پہنچنے اور فروخت ہونے تک مچھلیاں باسی ہو چکی ہوتیں۔ اس وجہ سے ماہی گیروں کا کاروبار ایک بار پھر متاثر ہوا اور اُنہوں نے مل کر اس مسئلے کہ حل نکالنے کی کوشش کی۔
کافی غور و خوض کے بعد اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ بڑی کشتی میں فریزر لگا دیے گئے۔ سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر فریزر میں رکھ دی جاتیں۔ جہاں مچھلیاں منجمد ہو جاتیں۔ اب جب ماہی گیر مچھلی کے باسی ہونے کی فکر سے آزاد ہوئے تو سمندر میں دور دور تک سفر کرنے لگے اور زیادہ وقت گزارنے لگے تاکہ زیادہ سے زیادہ مچھلیاں پکڑی جا سکیں۔ اس طریقے سے کچھ دن تک تو فروخت ٹھیک سے چلی مگر قصبے کے لوگ چونکہ تازہ مچھلی کھانے کے عادی اور شوقین تھے، اس لیے فریزر والی منجمد شدہ مچھلی کا ذائقہ اُنہیں پسند نہ آیا اور ماہی گیروں کی دکانداری پھر سے متاثر ہونے لگی۔
اب ماہی گیروں نے اس مسئلے کا یہ حل نکالا کہ فریزر کی جہاں کشتی میں پانی کے ٹینک نصب کر دیے گئے۔ سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر ٹینک میں ڈال دی جاتیں اور ساحل پر آ کر اُس ٹینک میں سے نکال کے فروخت کر دی جاتیں۔ ماہی گیروں نے سمجھا کہ اُن کا مسئلہ حل ہو گیا ہے لیکن یہ حل بھی دیرپا نہ نکلا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ساحل تک آتے آتے ٹینک میں مچھلیاں زندہ تو ہوتیں لیکن مدہوشی کی حالت میں ہوتی تھیں۔ کیونکہ ٹینک میں مچھلیاں جگہ کم ہونے کے باعث حرکت نہیں کرتی تھیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مدہوشی کی حالت میں آدھ مری مچھلیوں کا ذائقہ بھی قصبے کے لوگوں کو پسند نہ آیا اور ماہی گیری کی صنعت بحران کا شکار ہونے لگی۔
سب ماہی گیر ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھے اور اس مسئلے کا حل سوچنے لگے۔ ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد آخر کار اس مسئلے کا حل یہ نکالا گیا کہ پانی کے ٹینکوں میں مچھلیوں کے ساتھ ساتھ ایک عدد چھوٹی شارک بھی ڈال دی جاتی۔ جو ٹینک میں موجود مچھلیوں کو متحرک رکھنے میں مدد دیتی۔ مچھلیاں اپنے آپ کو شارک سے بچانے کے لیے ٹینک میں ادھر اُدھر گھومتی پھرتی رہتیں اور اس طرح سستی اُن پر غالب نہ آتی۔ تھوڑی بہت مچھلیاں تو شارک کا شکار ہو جاتیں لیکن زیادہ تر مچھلیاں خود کو بچانے میں کامیاب رہتیں، جن کو ساحل پہ جا کے ماہی گیر فروخت کر دیتے۔ اس طرح ٹینک میں موجود مچھلیاں زیادہ تر وقت متحرک رہنے کی وجہ ترو تازہ اور صحت مند ہوتیں اور قصبے کے لوگ تازہ مچھلی شوق سے خریدتے۔ بالآخر طویل ترین مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد ماہی گیروں کا ہر مسئلہ حل ہو گیا اور اُن کا کاروبار پھر سے پہلے کی طرح چل پڑا۔
اب آتے ہیں آج کے عنوان کی طرف۔ اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصد یقیناً کسی حد تک واضح ہو چکا ہے۔
آپ نے سنا ہو گا کہ حرکت میں برکت ہے اور جمود موت کا دوسرا نام ہے۔ ہم انسانوں کی زندگی میں بھی کبھی کبھی ایسا وقت آتا ہے کہ ہماری زندگی جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔ سب کچھ رکا ہوا سا لگنے لگتا ہے اور حرکت کی برکت ہم سے دور ہو جاتی ہے۔ تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے جمود کی اس کیفیت سے نکلنے کے لیے۔ خود کو متحرک رکھنے کے لیے۔
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمیں جمود کی کیفیت سے نکلنے کے لیے اپنے پیچھے شارک لگانے چاہئیں، جو ہمیں متحرک رکھیں۔ گھبرائیں نہیں، اصلی والی شارک پیچھے لگا کے بھاگنا نہیں ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو کوئی ایسی موٹیویشن دیں، جو آپ کو متحرک رکھے۔ کوئی چیلنج جو آپ پر سستی اور کاہلی کو غالب نہ آنے دے۔ یہ موٹیویشن آپ کا خواب بھی ہو سکتا ہے، آپ کی زندگی کا مقصد ہو سکتا ہے۔ جو کچھ آپ زندگی میں بننا چاہتے ہیں، اُسے اپنا شارک سمجھیں، اور بھاگیں، ایک جگہ رکیں نہیں، ورنہ آپ کی زندگی جمود کا شکار ہو جائے گی اور جمود موت کا دوسرا نام ہے۔
جس طرح شارک کا خطرہ مچھلیوں کو بھاگنے پر مجبور تھا اور اُنہیں چھوٹے سے ٹینک (آپ کے محدود وسائل) میں بھی متحرک اور تازہ دم رکھنے میں مدد دیتا تھا، بالکل اسی طرح آپ کی زندگی میں درپیش چیلنجز بھی آپ کو محدود وسائل کے باوجود بھی متحرک رکھتے ہیں۔ آپ کو آگے بڑھنے اور بڑھتے رہنے کی موٹیویشن دیتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کی زندگی میں کوئی شارک (چیلنج یا مقصد) نہیں ہے تو آپ بھی مچھلیوں کی طرح آلسی ہو جاتے ہیں اور زندگی کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ تو اس آلس پن، سستی اور کاہلی کو بھگانے کے لیے اپنا شارک ڈھونڈیں جو آپ کو متحرک رکھے اور رکنے نہ دے۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔