جب میں نے میاں بیوی کے خوشگوار تعلق کو پروان چڑھانے اور گھر کو جوڑے رکھنے کے لیے مضمون لکھا تو بہت سے لوگوں کے مجھے میسیجز موصول ہوے کہ جب یہ تعلق ہی جان لیوا بن جائے،سب سے زیادہ بے اعتمادی والا رشتہ بن جائے،جب علیحدہ ہونے میں ہی اپنی جان کی بھلائی ہو ساتھ رہنا تکلیف دہ ہو،اگلا انسان جذبات و احساسات کا قاتل ہو،اس سے ذہنی آسودگی حاصل نہ ہو رہی ہو، وہاں گھر کو جوڑے رکھنے کی ساری تدبیریں ناکام ہو جاتی ہوں توتب کیا کریں؟
دوستوں دیکھیں،ہمیں ہر حال میں اپنی سو فیصد کوشش گھر کو جوڑنے میں ہی لگانی ہے ،چھوٹی چھوٹی باتوں پے دل برداشتہ نہیں ہونا کیوں کہ معاشرے کی حالت دیکھیں تو میرے سامنے حقیقی ان بچیوں کی مثالیں ہیں جنہوں نے معمولی سے لڑائی جھگڑوں سے نبٹنے کی بجائے اپنا گھر توڑ لیا پھر انکی ساری زندگی رل گئی ۔
ایسی جوان بچیوں کے لیے بھی وہ ہی رشتے ملے جو عمر رسیدہ تھے یا پہلی بیوی فوت ہو چکی تھی کوئی کنوارہ اچھا لڑکا شادی کے کرنے کو تیار نہیں تھا۔پھر جن بچیوں کے پاس اولاد تھی ،ان کا زیادہ برا حال ہوا ۔بچے کوئی رکھنے کے لیے تیار نہیں تھا ۔لوگ کہتے تھے ہم کیوں کسی کے بچے پالیں۔کچھ نے تو پہلے خامی بھری کہ بچے بھی ساتھ رکھیں گے مگر بعد میں اپنی بات سے پھر گئے ۔ بچوں کو بھی مار کر بھگا دیا۔ نتیجہ کیا ہوا ماں مجبور ہو گئی، بچے رل گئے، یا تو نانی کے پاس رہ کر ممانیوں کی جھڑکیاں کھائیں یا پھر مدارس نے کفالت کی۔
ہر وقت خیر مانگنی چاہیے ،ایسے بچے بہت ذہنی تکلیف سے گزرتے ہیں۔اس کے علاوہ ان بچیوں کو اگلے سسرال میں بھی طعنے سننے پڑے ۔اتنی اچھی تھی تو پہلے نے طلاق کیوں دی۔اب لوگ کہیں گے بیٹیوں کو پڑھاؤ خود کفیل بناؤ ،جاب کریں گی اپنا کمائیں گی تو کسی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔پڑھانا اچھی بات ہے لیکن اس کا کوئی جواز نہیں بنتا کہ ان کو پڑھائی کے تکبر میں اپنا کمانے کے غرور میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے،ایک جاب والی عورت کی زندگی زیادہ مشکل ہوتی ہے۔اس کی روٹین زیادہ سخت ہوتی ہے ۔اسے بچوں کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دینے کے لیے ہسبنڈ کی سپورٹ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
اس لیے یہ فضول سوچ دماغ سے نکال دیں ۔جہاں بچیوں کے لیے مشکل ہے وہاں مردوں کے لیے بھی آسان نہیں۔مفتی طارق مسعود ایک دفعہ بتا رہے تھے ایک بندا سعودیہ سے آیا پہلی بیوی کے ساتھ بن نہیں آئی تھی تو طلاق دے دی اب اسے کوئی رشتہ نہیں دے رہا ۔ہر ایک یہ ہی کہتا پہلے والی کو کیوں چھوڑا اس میں بھی کوئی خرابی ہو گی ۔کوئی کنواری بیٹی کا رشتہ دینے کے لیے راضی نہیں سارے رشتے بیوہ اور طلاق یافتہ کے مل رہے ہیں۔
یہ مجموعی معاشرے کی سوچ ہے۔ آپ اس سے بھاگ نہیں سکتے اس لیے میں ان سارے واقعات کی روشنی میں یہ ہی مشورہ دوں گی کہ ہر ممکن حد تک اپنا گھر بچانے کی کوشش کرو۔ساس لڑتی ہے نند تنگ کرتی ہے صبر و شکر سے کام لو بس تھوڑا سا وقت گزر جانے دو خود ہی تمہارے ہاتھ میں سب کچھ آ جانا یے نندوں نے اپنے گھر چلے جانا ساس میں بھی وہ دم خم نہیں رہنا۔پھر تم نے ہی گھر کی ملکہ ہونا ہے۔لیکن آخری حد کیا ہے گھر بسانے کی زمہ داری مرد و عورت دونوں کی ہے تو آخری حد بھی دونوں پے ہی لاگو ہوتی ہے یہ نہیں کہ بیوی ہر حد پار کرتی رہے اور شوہر برداشت کرتا رہے۔
رشتہ ختم کرنے کے حوالے سے اب میری بتائی گئی تین بنیادی حدیں یاد رکھیں۔
اگر کردار کی خرابی ہو ۔
اکثر عورتوں نے اپنے شوہر کے علاوہ دوسرے مردوں سے بھی روابط رکھے ہوتے ہیں یا شوہروں نے باہر ناجائز تعلق رکھے ہوتے ہیں ۔جب کسی کو اپنے شریک حیات میں یہ والی خرابی کا پتہ چلے تو سمجھ لیں یہ آخری حد ہے۔ نہ ایسا مرد قبول ہے اور عورت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔اس صورتحال میں علیحدہ ہو جائیں۔بیوی اگر بس باتوں کی حد تک انوالو ہے اور پکڑے جانے پے معافی مانگ لی ہے سچی توبہ کر لی ہے تو ایک موقع اور دے دیں۔لیکن اگر فزیکلی انوالو ہے جسمانی تعلق کسی اور کے ساتھ ہے تو کوئی معافی نہیں ۔جو عورت اپنے شوہر کی عزت کی حفاظت نہیں کر سکتی اس کو اپنی زندگی میں رکھنے کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا۔ایسی عورت کا کوئی بھروسہ نہیں یہ اپنے عاشقوں کے ساتھ شوہر کو جان سے بھی مروا سکتی ہے ۔
اگر شوہر نشئی ہو،جسمانی تشدد کرتا ہو۔
اگر شوہر نشہ کرتا ہے تو علم ہوتے ہی کنارہ کر لیں کیوں کہ یہ ایسی برائی ہے جو اپنے ساتھ سو خرابیاں لے کر آتی ہے ۔نشہ دیگر جرائم کی جڑ ہے۔ جب جمع پونجی ختم ہو جائے گی تو نشئی آدمی چوری بھی کرے گا اور اگر اسے نشہ پورا کرنے کے لیے گھر والوں کو بھی بیچنا پڑے تو بیچ دے گا۔جس کو ایک دفعہ عادت پڑ جائے قبر تک ساتھ جاتی ہے۔
شوہر اگر ہاتھ اٹھاتا ہو یا ساس،نند جسمانی تشدد کرتی ہو تو فوراً اپنے حق کے لیے کھڑے ہو جائیں ۔ایسے لوگوں سے جان چھڑا لیں کیوں کہ ان کا کوئی بھروسہ نہیں جان سے بھی مار سکتے ہیں۔
اگر رزق حرام گھر میں آتا ہو۔
شوہر اگر حرام ذرائع سے رزق کماتا ہو تو فوراً سے مخالفت کریں،حرام کا رزق نسلیں بگاڑ دیتا ہے۔پہلے تو دلائل سے سمجھائیں اس کے متعلق احادیث سنائیں کہ یہ کتنا خطرناک ہے اور رزق حرام کھانے والوں کا آخرت میں کیا انجام ہو گا۔ اگر شوہر پھر بھی باز نہ آئے تو علیحدہ ہو جائیں یہ تیسری حد ہے۔
ان باتوں کے علاوہ دوسری چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو نظر انداز کریں اور گھر کو جوڑے رکھنے کی کوشش کریں۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔