کردار سازی

خواتین کو بااختیار کیسے بنایا جاسکتا ہے

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

ابھی میں ایک خاتون کا انٹرویو سن رہی تھی جسے سننے کے بعد کافی افسوس ہوا کہ ہمارے ہاں وومین ایمپاورمنٹ کے نام پر جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ سراسر عورت ذات کی توہین ہے۔ ہم آج خواتین کو بااختیار بنانے کی بحث چھیڑے ہوئے ہیں اور اسلام نے یہ تاکید چودہ سو سال پہلے کی ہے۔ مزید آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وومین ایمپاورمنٹ کسے کہتے ہیں؟ خواتین کو بااختیار کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ آج کل جس چیز کو وومین ایمپاورمنٹ سمجھا جارہا ہے وہ فیمنسم کی غلط تشریح کے سوا کچھ نہیں ہے۔

مغرب کی پیروی کرتے ہوئے آدھے ادھورے کپڑے پہن کر دنیا کے سامنے اپنے حسن کی نمائش کرنا وومین ایمپاورمنٹ نہیں ہے نہ ہی اپنے جائز حقوق مانگنے کے بجائے بیچ چوراہے پہ کھڑے ہو کر شرمناک نعرے بلند کرنا یا غلط مطالبات کرنا درست عمل ہے۔ جو خواتین اسے وومین ایمپاورمنٹ سمجھتی ہیں انہیں اپنے ان حقوق کا علم ہی نہیں ہے جن کی خاطر انہوں نے آواز اٹھانا ہے نہ ہی انہیں اپنی اہمیت کا اندازہ ہے۔

خواتین میں خود اعتمادی کا احساس اجاگر کرنا، علم و آگہی کو پھیلانا، اپنی پسند کا تعین کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا اور معاشی لحاظ سے مضبوط بنانا ہی وومین ایمپاورمنٹ کی اصل تعریف ہے۔

امہات المؤمنین میں سے خدیجہ رضی اللہ عنہا تجارت کے پیشے سے وابستہ تھی، عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں میں سب سے زیادہ فقیہہ اور صاحب علم تھی، ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا کا صاحب علم خواتین میں دوسرا نمبر تھا، صفیہ رضی اللہ عنہا جنگ میں حصہ لیتی تھی۔ یہ مثالیں ایک ثبوت ہے کہ اسلام عورت کو گھر تک محدود رہنے کا پابند قطعاً نہیں بنا رہا ہے۔ ہاں کچھ حدود ہے جس کا خیال رکھتے ہوئے عورت دنیا کا ہر کام کرسکتی ہے۔

  نصیحت کرتے ہوئےعزت نفس کا خیال رکھیں

عورتوں کو اعلیٰ تعلیم فراہم کرنا ہی وومین ایمپاورمنٹ کی بنیاد ہے کیوں کہ تعلیم عورت کو خود اعتماد بناتی ہے، خود اعتمادی معاشی خود مختاری کی جانب قدم بڑھانے پر مجبور کرتی ہے اور پھر اگلے مرحلے میں وہ مکمل طور پر بااختیار بن جاتی ہے۔ بااختیار خواتین ہی اپنے معاشرے کے روشن مستقبل کو یقینی بناتی ہے۔

مجھے یہ لکھتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہیں کہ میرا ملک وومین ایمپاورمنٹ کی طرف تیزی سے سفر طے کرتا جا رہا ہے۔ اس مٹی سے ہمت اور بہادری کی پیکر نگار جوہر پیدا ہوئی، مریم مختار پیدا ہوئی، ہمارے ہاں منیبا مزاری کی مثال موجود ہے جس نے اپنی معذوری کو اپنی طاقت سمجھا، ہم جہان آرا کو جانتے ہیں جس نے کاروبار کے ذریعے اپنا لوہا منوایا، فرحت ہاشمی جو ملک بھر میں دین کا کام کررہی ہیں، نمرہ احمد، عمیرہ احمد، سانیہ نشتر، عائشہ فاروق، ماریہ عمر، مسرت مصباح، اسما جہانگیر، ثناء میر، یہ وہ عورتیں ہیں جنہوں نے باقی خواتین کے لئے مثالیں قائم کی ہیں لیکن کہتے ہیں ناں کہ "ایک خراب مچھلی پورے تالاب کو گندا کردیتی ہے” تو اسی طرح ایک معمولی سے منفی سوچ کا پروان چڑھنا پورے معاشرے میں انتشار پیدا کردیتا ہے۔

  خود شناسی کا پہلا سبق یہ ہے کہ جو تم ہو، وہی کافی ہے۔

میں اپنی تمام بہنوں کو یہ پیغام دینا چاہوں گی کہ اگر آپ بااختیار بننا چاہتی ہیں، معاشرے میں اپنا اعلیٰ مقام پانا چاہتی ہیں تو میری یہ بات آج اپنی ڈائیریز میں لکھ لیں کہ مثبت سوچ اور معاشی خود مختاری ہی آپ کو بااختیار بنائے گی۔ آپ کے قدم زمین پر اور سوچ آسمان پر ہونی چاہئیے۔

اقبال نے بھی کیا خوب فرمایا ہے

ہر مقام سے آگے مقام ہے تیرا

حیات ذوق سفر کے سوا کچھ اور نہیں

5/5 - (4 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

لکھاری نے اگرچہ حال ہی میں لکھنے کا آغازکیا ہے مگر اس سے پہلے دو ناول( "الوداع پاکستان" اور "زندگی جازب و جمیل نہیں") اور دو افسانے( "چنگڑیان" اور "خوش قسمتی") شائع ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ فیس بک پر ہونے والے مقابلوں کے لئے اکثر لکھتی رہتی ہیں۔