کردار سازی

اپنی عزتِ نفس پر کبھی سمجھوتہ نہ کریں۔

کہتے ہیں رشتے بچانے کے لیے جھکنا بھی پڑے تو جھُک جاؤ۔ اپنی انا کو پس پشت ڈال کر رشتے کی ڈوری کو ٹوٹنے سے بچا لو۔ لیکن یہاں ایک نُکتہ قابلِ توجہ ہے۔ جس کی طرف میں اپنے قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گی۔ وہ یہ کہ انا اور عزتِ نفس کے درمیان فرق کو پہچانیں۔

عاجزی بیشک اچھی چیز ہے۔ تکبر بلاشبہ شیطانی صفت ہے۔ میں یہ ہرگز نہیں کہہ رہی کہ اپنی انا کی دیواروں کو رشتوں اور دلوں کے درمیان کھڑا کر دیں۔ تعلقات کو اپنے تکبر کی بھینٹ چڑھا دیں۔ بالکل نہیں۔

صرف اس ایک باریک سے نکتے کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ آپ جس کو انا سمجھ کر قربان کر رہے ہیں، کہیں وہ آپ کی عزتِ نفس تو نہیں ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہے کہ آپ دنیاوی رشتے اور تعلقات بچانے کے لیے بار بار اپنی عزتِ نفس کی قربانی دے رہے ہیں تو پھر مبارک ہو، کہ آپ زندگی میں کبھی کامیابی کی منازل حاصل نہیں کر سکتے۔

یاد رکھیں ہمیشہ، کہ دنیا آپ کے لیے ہمیشہ سیکنڈ چوائس ہونی چاہیے۔ پہلی ترجیح اپنی ذات کو دیں۔ کیونکہ آپ ہیں تو دنیا ہے۔ آپ نہیں تو دنیا آپ کے لیے تنکے برابر بھی اہمیت نہیں رکھتی۔

سب سے پہلے خود کو خود عزت دینا سیکھیں۔ لوگ آپ کی عزت، آپ کی اور آپ کے کام کی قدر تب کریں، جب آپ خود اپنی عزت کرنا سیکھیں گے۔ اگر آپ خود ہی اپنی سروسز کسی کو فری آف کاسٹ فراہم کرنا شروع کر دیں گے، تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ آپ نے خود بھی اپنی محنت اور اپنی صلاحیتوں کی قدر نہیں کی۔ تو پھر آپ دوسروں سے یہ اُمید کیسے لگا سکتے ہیں کہ وہ آپ کی مفت سروسز کی قدر کریں گے۔ قدر ملتی نہیں ہے، کروانی پڑتی ہے۔ یہ دنیا ہے، اور یہاں ایسے ہی چلنا پڑتا ہے۔ اگر ہم دنیا کے ساتھ چلنے کے دنیاوی طریقے نہیں سیکھیں گے تو دنیا ہمیں اپنے پیروں تلے روندتی ہوئی بڑی ہی تیز رفتاری سے آگے بڑھ جائے گی۔

سب سے پہلے اپنے آس پاس، اپنے حلقہء احباب میں، اپنے سوشل سرکل میں موجود لوگوں کو دیکھیں اور پرکھیں۔ اُن کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ کون آپ کے ساتھ کس حد تک مخلص ہے۔ کون آپ کے لیے آپ کے ساتھ کھڑا ہے اور کون ذاتی مفاد کے لیے۔

جب سمجھ لیں، اُس کے بعد لوگوں کو اُنہی کے طریقوں سے ڈیل کرنا شروع کریں۔

میں نے اپنی زندگی کے تین اہم ترین سال ایک ادارے کی بے لوث خدمت میں گزار دیے۔ خود کی صحت، محنت، کسی چیز کی پرواہ نہیں کی۔ نہ دن دیکھا نہ رات۔ بس ادارے کی بہتری اور ترقی کے لیے کام کیا۔ لیکن پھر ایک وقت آیا کہ میں نے اپنی بے لوث خدمات کے بدلے اُس ادارے کی انتظامیہ سے ایک چھوٹی سی اُمید وابستہ کر لی۔ مجھے یقین سا تھا کہ میں نے تین سال اس ادارے میں لگائے ہیں، بلا غرض محنت کی ہے تو کم از کم اتنا تو میں حق بھی رکھتی ہوں کہ میں ایک چھوٹا سا مطالبہ کروں، تو میری خدمات کو دیکھتے ہوئے میرا وہ مطالبہ پورا کر دیا جائے گا۔ لیکن میرا سارا مان، یقین اور امیدیں، سب کچھ منٹوں میں خاک میں مل گیا۔ میں ایک زعم میں تھی، کہ کم از کم میری محنت کا کچھ صلہ تو مجھے ضرور ملے گا، لیکن میرے اس اندھے یقین کی عمارت دھڑام سے زمین بوس ہوئی، جس نے میرے حواس تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

مجھے احساس ہوا اُس وقت کہ دنیا میں بیوقوفوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اپنی خدمات کی، اپنی محنت کی اور اپنی صلاحیتوں کی جب تک ہم خود قدر نہیں کریں گے، تب تک لوگ اُن سے صرف اور صرف فائدے بی اٹھاتے رہیں گے۔

کہتے ہیں وقت اچھا ہو یا برا، گزر ہی جاتا ہے۔ مجھ پہ آیا وہ برا وقت بھی گزر گیا۔ لیکن جاتے جاتے مجھے زندگی کے یہ اہم اسباق سکھا گیا۔

  علم نہ ہونا شرم کی بات نہیں

میں نے اُس ادارے میں تین سال ضائع کرنے کے بعد اسے خیرباد کہا اور اپنے لیے نئے راستے اور نئی منزلیں تلاش کرنا شروع کیں۔ میرے وہاں سے جانے کے 1 ماہ بعد مجھ سے دوبارہ اُس ادارے کی طرف سے رابطہ کیا گیا اور مجھ سے معذرت کرنے کے بعد مجھے واپس آنے کو کہا گیا۔ میرا مطالبہ منظور کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔ میں نے معذرت قبول کر کے انہیں معاف کرتے ہوئے اپنا دل اُن کی طرف سے صاف کر لیا۔ لیکن ساتھ ہی واپس اسی ادارے میں جانے سے صاف معذرت کر لی۔ کئی بار مختلف طریقوں اور ذرائع سے مجھے واپس بلانے کی کوششیں کی جاتی رہیں لیکن میں اپنے انکار پر مصر رہی۔ کیونکہ جہاں ایک بار میری ذات کی بے قدری ہو چکی تھی، مجھے دوبارہ اُس جگہ قدم رکھنا منظور نہیں تھا۔ مجھے خود غرض کہا گیا۔ یہ تک جتایا گیا کہ غلطی سب سے ہوتی ہے۔ لیکن بہتر وہ ہے جسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ اسے سدھارنے کے بھی کوشش کرے۔ اس ادارے کے مالکان کو بھی میرے جانے کے بعد اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے مجھ سے معافی مانگ کے اپنی غلطی سدھارنے کی کوشش بھی کی۔ لیکن میں بلاوجہ ضد کر کے خود غرضی کا مظاہرہ کر رہی ہوں۔ یہ سب کہہ کر مجھے عار دلانے کی کوشش کی گئی۔

  خود اعتمادی اور خودی میں بہتری

میں نے یہ سب کچھ تحمل سے سنا اور کہا تو صرف اتنا کہ بعض غلطیاں سدھاری نہیں جا سکتیں۔ اُن کے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنے نقصان کو دیکھ کے ہونے والے احساس کا کیا فائدہ۔ مزه تو جب ہے کہ آپ پہلے دن سے ہی دل سے کسی کی محنت کی قدر کریں۔

معافی مانگنے والوں کو معافی ضرور دیں۔ لیکن دوسرا موقع کبھی نہ دیں۔ اپنی غلطیوں سے سیکھیں اور خود کو ایک مضبوط انسان بنائیں۔

اپنی اس ساری کہانی کے سنانے کا مقصد یہ تھا کہ دھوپ میں جلنا گوارا کر لیں، لیکن اُس سائے میں کبھی نہ بیٹھیں، جس کے نیچے کبھی آپ کی ذات کی تذلیل کی گئی ہو۔ معذرت، افسوس، پچھتاوا یہ سب کچھ انسان اپنے کتھارسس کے لیے کرتا ہے۔ صرف اپنا کم کرنے کا لیے۔ ایک سوری کہہ دینے سے کسی کے دل میں چبھے آپ کے رویوں اور لفظوں کے نشتر سے لگنے والے گھاؤ بھر نہیں جاتے۔

اس لیے خود اپنی زبان اور افعال پر اتنا کنٹرول ضرور رکھیں کہ آپ کی وجہ سے کسی کی دل آزاری نہ ہو، اور نہ ہی کسی اور کو اپنی ذات کی تحقیر کرنے کا حق دیں۔

ایک بار پھر وہی بات کہوں گی کہ عزتِ نفس اور انا کے فرق کو سمجھیں۔ انا کو بیشک قربان کر دیں۔ لیکن عزتِ نفس پر کبھی سمجھوتہ نہ کریں۔ انسان کا اپنی ذات، اپنی محنت، اپنی کمائی، اپنی صلاحیتوں، ہر چیز پر سب سے پہلا حق اپنا بنتا ہے۔ اور اگر آپ اپنی نا قادری کرتے ہیں تو اپنی حق تلفی کرتے ہیں۔ اور اپنی حق تلفی کرنا بھی اتنا ہی بڑا گناہ ہے، جتنا کہ کسی اور کی حق تلفی کرنا۔

5/5 - (1 vote)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

اس تحریر کی مصنفہ اردو ادب میں ماسٹر کرنے کے بعد ایک نجی تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اپنے لکھنے کا با قاعدہ آغاز سال 2021 سے کیا اوراب تک کئی میگزینز میں ان کی تحاریر شایع ہو چکی ہیں۔