زندگی کی مصروفیات میں اکثر ہم کاموں کو مؤخر کرنے کی عادت اپنا لیتے ہیں۔ "آج کا کام کل پر چھوڑیں” ایک عام کہاوت ہے جو سستی اور ٹال مٹول کی نمائندگی کرتی ہے۔ لیکن اگر ہم اس میں تھوڑی سی مزید تخلیقی سوچ شامل کریں تو یہ کہاوت کچھ یوں بن سکتی ہے: "آج کا کام کل پر نہیں بلکہ پرسوں پر چھوڑیں”۔ یہ جملہ سننے میں مزاحیہ لگتا ہے، مگر اس کے پیچھے ایک دلچسپ فلسفہ چھپا ہے۔
کام کو مؤخر کرنا ہمیشہ منفی نہیں ہوتا۔ بعض اوقات وقتی جذبات یا دباؤ میں کیے گئے فیصلے غلط ثابت ہوتے ہیں۔ اگر ہم کسی کام کو تھوڑا وقت دے کر پرسوں پر چھوڑ دیں، تو ہمیں بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ یہ تاخیر دراصل سوچنے، منصوبہ بندی کرنے اور تخلیقی حل تلاش کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
کامیاب افراد کام کو مؤخر ضرور کرتے ہیں، لیکن وہ جانتے ہیں کہ کون سا کام فوری توجہ کا مستحق ہے اور کون سا کام انتظار کر سکتا ہے۔ وہ غیر ضروری کاموں کو مؤخر کرتے ہیں تاکہ اپنی توانائی اور وقت اہم کاموں پر صرف کر سکیں۔ اس طرح وہ نہ صرف بہتر نتائج حاصل کرتے ہیں بلکہ ذہنی سکون بھی برقرار رکھتے ہیں۔
جب ہم کہتے ہیں "پرسوں پر چھوڑیں”، تو اس کا مطلب صرف سستی نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ ہمیں جذباتی ردعمل سے بچاتا ہے اور ہمیں موقع دیتا ہے کہ ہم کام کو بہتر انداز میں انجام دیں۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کسی اہم پریزنٹیشن پر کام کر رہے ہیں، تو ایک دن کی تاخیر آپ کو مزید تحقیق اور تیاری کا موقع دے سکتی ہے۔
ڈیجیٹل دنیا میں بھی یہ فلسفہ کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر آپ بلاگ لکھ رہے ہیں یا کسی ویب سائٹ کے لیے مواد تیار کر رہے ہیں، تو فوری اشاعت سے بہتر ہے کہ آپ مواد کو وقت دیں، تحقیق کریں، اور بہتر انداز میں پیش کریں۔ اس طرح آپ کا مواد نہ صرف معیاری ہوگا بلکہ قارئین کے لیے بھی زیادہ مفید ثابت ہوگا۔
تاہم، کام کو مؤخر کرنے کے نقصانات بھی ہیں۔ اگر آپ بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہر کام کو پرسوں پر چھوڑتے ہیں، تو آپ ڈیڈ لائنز مس کر سکتے ہیں، اعتماد میں کمی آ سکتی ہے، اور ٹیم ورک متاثر ہو سکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ سمجھداری سے فیصلہ کریں کہ کون سا کام مؤخر کرنا ہے اور کون سا نہیں۔
فیصلہ کرنے کے لیے چند سوالات مددگار ثابت ہو سکتے ہیں: کیا یہ کام فوری ہے؟ کیا میرے پاس مکمل معلومات ہیں؟ کیا تاخیر سے کام کا معیار بہتر ہو سکتا ہے؟ اگر ان سوالات کے جواب "ہاں” میں ہیں، تو پرسوں پر چھوڑنا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہو سکتا ہے۔
آخر میں، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پرسوں پر چھوڑنا ایک فن ہے۔ یہ فن ہر کسی کو نہیں آتا۔ یہ صرف ان لوگوں کو آتا ہے جو وقت کی قدر کرتے ہیں، منصوبہ بندی کرتے ہیں، اور جانتے ہیں کہ کب ایک قدم پیچھے ہٹنا بہتر ہوتا ہے۔ تو اگلی بار جب کوئی آپ سے کہے "آج کا کام کل پر نہ چھوڑیں”، تو مسکرا کر کہیں: "کل پر نہیں، بلکہ پرسوں پر چھوڑیں۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔

