آج کے نوجوانوں کے ذہن میں ایک سوال مسلسل گردش کرتا ہے: "یہ ڈگری کس کام کی؟” وہ زمانہ گزر گیا جب کہا جاتا تھا کہ پڑھو گے لکھو گے تو نواب بنو گے۔ آج حقیقت یہ ہے کہ پڑھنے لکھنے کے بعد بھی نوکری کے لیے لائن میں لگنا پڑتا ہے، اور اس لائن میں جگہ بنانے کے لیے سفارش کی ضرورت ہوتی ہے۔
بے روزگاری کوئی خیالی بات نہیں بلکہ ہمارے نوجوانوں کی بھوک اور ٹوٹی ہوئی امیدوں کا نام ہے۔ اقتصادی سروے 2024 کے مطابق 20 سے 24 سال کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 11 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں بلکہ وہ چہرے ہیں جو گلی محلوں میں سوالیہ نظروں کے ساتھ بھٹکتے ہیں۔
ہم تعلیم کے نام پر تھیوری تو رٹا دیتے ہیں، مگر جب نوجوان عملی زندگی کے میدان میں اترتے ہیں تو وہ الجھنوں میں پھنس جاتے ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا زندگی صرف امتحان پاس کرنے کا نام ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اصل امتحان وہ ہے جو کتابوں میں نہیں لکھا گیا، بلکہ وہ ہنر ہیں جو زندگی کے سفر میں کام آتے ہیں۔
ان ہنروں کو آج کل "لائف سکلز” کہا جاتا ہے، یا سیدھی زبان میں "دنیا داری”۔ یہ وہ صلاحیتیں ہیں جو جیب خالی ہونے پر بھی انسان کے ساتھ کھڑی رہتی ہیں۔ سب سے پہلے بات کرنے کا ڈھنگ، یعنی کمیونیکیشن اسکلز۔ اگر آپ اپنے خیالات کو دوسروں تک مؤثر انداز میں نہیں پہنچا سکتے تو آپ بھیڑ میں گم ہو جائیں گے۔
دوسرا ہنر تنقیدی سوچ ہے، جسے کریٹیکل تھنکنگ کہا جاتا ہے۔ یہ صلاحیت انسان کو مسائل کا حل تلاش کرنے میں مدد دیتی ہے۔ نوکری میں کامیابی اسی کو ملتی ہے جو مسئلے کا حل پیش کرے، نہ کہ صرف مسئلہ بتائے۔
تیسرا ہنر ذہنی مضبوطی ہے۔ بے روزگاری کا دباؤ اکثر انسان کو اندر سے توڑ دیتا ہے۔ اگر آپ اپنے غصے، مایوسی اور خوف پر قابو نہیں پاتے تو دنیا آپ کو شکست دے دیتی ہے۔ اصل کامیابی یہ ہے کہ مشکل حالات میں بھی خود کو قائم رکھا جائے۔
ہم کب تک سفید کالر نوکری کا انتظار کرتے رہیں گے؟ اصل ترقی اس وقت شروع ہوتی ہے جب انسان خود روزگار پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان جس کے پاس بڑی ڈگری نہیں تھی مگر ویلڈنگ کا ہنر جانتا تھا، اس نے اپنا چھوٹا سا کاروبار شروع کیا اور آج نہ صرف خود کما رہا ہے بلکہ دوسروں کو بھی روزگار دے رہا ہے۔ یہ کامیابی ڈگری سے نہیں بلکہ دنیا داری سے ملی۔
کیریئر کونسلنگ کا مقصد صرف ڈگری کا انتخاب نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ سکھانا چاہیے کہ عملی زندگی میں کس طرح اپنی صلاحیتوں کو استعمال کر کے روزگار پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اگر نوکری نہیں ہے تو اس کا ماتم کرنے کے بجائے اپنی لائف سکلز کو استعمال کریں اور نئے راستے تلاش کریں۔
بے روزگاری ایک حقیقت ہے، مگر اس حقیقت سے آنکھیں چرانے کے بجائے ہمیں لائف سکلز کو اپنانا ہوگا۔ ڈگری کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے، اصل اثاثہ وہ ہنر ہیں جو ہمارے دماغ اور ہاتھوں میں ہیں۔ منزل وہ نہیں جو دوسروں نے دکھائی، بلکہ وہ ہے جو ہم خود تلاش کریں گے۔ اس سفر میں اصل ہتھیار ہماری ڈگری نہیں بلکہ ہماری بے باک دنیا داری ہوگی۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔

