کردار سازی

کیا والدین اپنی ذمے داریاں پوری کر رہے ہیں؟

کیا آپ کا خیال ہے کہ بچے پیدا کرنے کے بعد اُن کی خوراک اور لباس کی ضروریات پوری کر دینا کافی ہوتا ہے؟

اگر ہاں، تو آپ غلط ہیں۔ کیونکہ خوراک اور لباس کی ضرورتیں پوری کرنے کے علاوہ والدین کی کچھ اور ذمے داریاں بھی ہوتی ہیں۔ جن سے کسی صورت صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ اگر قدرت نے آپ کو والدین جیسے عظیم منصب پر فائز کیا ہے، تو آپ کو اس منصب کی ذمے داریاں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ یہی اولاد آپ کے لیے دنیا و آخرت میں رسوائی کا سبب بن سکتی ہے۔

اب آتے ہیں موضوعِ کی طرف۔ وہ کون سی ذمے داریاں ہیں، جن کو جاننا، سمجھنا اور پورا کرنا بطورِ والدین آپ کے لیے از حد ضروری ہے۔

اس کے لیے آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرنا چاہوں گی، جس کی مدد سے مجھے اپنا موضوع بہتر طور پر سمجھانے میں اور قارئین کو سمجھنے میں سہولت رہے گی۔

افریقہ کے گھاس کے میدانوں میں شیر کے بچے جب کھیل رہے ہوتے ہیں تو بچہ شیر کھیلتے کھیلتے بڑے شیر کے جسم پر اپنے دانت گاڑ دیتا ہے۔ تب آپ بڑے شیر کا مشاہدہ کریں تو وہ تکلیف میں ایک دہاڑ مارتا ہے۔ بچہ شیر خوش ہو جاتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے اس بچے کے چھوٹے چھوٹے دانت اس بڑے شیر کی مضبوط کھال کو اتنی تکلیف پہنچا سکتے ہیں؟

اس کا جواب ہے بالکل نہیں۔ پھر شیر اتنی تکلیف میں دہاڑ کیوں مارتا ہے؟

اس کا جواب ہے اس چھوٹے شیر کو یہ یقین دلانے کیلئے کہ اس کے پنجوں اور جبڑوں میں اتنی طاقت ہے جو ایک ایسے بڑے اور طاقتور شیر کی بھی چیخیں نکال سکتا ہے، جس کی دہشت سے سارا جنگل ڈرتا ہے۔ یہی اعتماد لے کر کل جب یہ بچہ شیر بڑا ہوتا ہے تو بڑے بڑے ریوڑ اس کی ہیبت سے بھاگ رہے ہوتے ہیں اور وہ ایک پر اعتماد اور باوقار طریقے سے زندگی گزارتا ہے۔

  اچھی ملازمت کی تلاش ایسے کریں

اب واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ہم انسان کیا کرتے ہیں؟

ہم جسمانی پرورش کر کے، اپنے بچوں کو بڑا تو کر دیتے ہیں لیکن اکثر ان سے اعتماد چھین لیتے ہیں۔ دوسروں کے بچوں کے ساتھ تقابل کر کر کے ہم خود اُنہیں کمزور اور کم ہمت بنا دیتے ہیں۔

 ہمارا تعلیمی نظام بھی بچوں کا اعتماد کمزور کرتا ہے۔ مثلاً ہمارے سکول میں ایک استاد شاگردوں کو کوئی مضمون لکھنے کا کہتا ہے تو وہ مضمون چیک کرتے وقت یہ دیکھتا ہے کہ کس طالب علم نے وہ لکھا ہے جو استاد کی طلب کے مطابق ہے۔ جس طالب علم نے استاد کی طلب کے مطابق لکھا ہوتا ہے، اسے اچھے نمبر دے دیتا ہے اور جس نے استاد کی طلب پوری نہ کی اسے کم نمبر دیے جاتے ہیں۔

ایک اچھا استاد مضمون میں صرف یہ چیک کرتا ہے کہ میرے طالب علم کی سوچ کہاں ہے. وہ اپنے طالب علم کی سوچ کی کمی بیشی نوٹ کرتا ہے لیکن کسی طالب علم کو نمبر نہیں دیتا. کیونکہ وہ استاد طالب علم کو بنا رہا ہوتا ہے۔ معمار بن کر اُس کی تعمیر کر رہا ہوتا ہے۔  جبکہ ہمارا استاد اسے اپنی سوچ پر تول رہا ہوتا ہے. جو اس ترازو پر پورا نہ اترے وہ فیل کر دیا جاتا ہے اور اس کا اعتماد کچل دیا جاتا ہے۔

سکول جانے والے بچوں کو اچھے مارکس کی ایک ریس میں لگا دیا جاتا ہے۔ جس کے گریڈز اچھے ہوں وہ والدین کا فیورٹ بچہ ہوتا ہے۔ اور جس کی ذہانت کا لیول دوسروں سے کم ہو وہ بے چارہ احساسِ محرومی اور احساسِ کمتری کا شکار بنا دیا جاتا ہے۔

والدین اگر دوسروں کے بچوں کے ساتھ، یا اپنے بچوں کا ہی ایک دوسرے سے تقابل کرنے کے بجائے اُنہیں پر اعتماد بنائیں، یہ یقین دلائیں کہ آپ کسی سے کم نہیں ہیں۔ آپ جو ہیں، جیسے ہیں، ہمیں ویسے ہی آپ سے پیار ہے۔ آپ نے کسی اور کی طرح نہیں بننا، کیونکہ آپ کوئی اور نہیں ہیں۔ آپ، آپ ہیں۔ نہ آپ کسی اور کی طرح بن سکتے ہیں نہ کوئی آپ کی طرح ہو سکتا ہے۔ اگر والدین بچے کو شروع دن سے یہ اعتماد دلائیں تو کچھ بعید نہیں کہ کل کو ہر بچہ معاشرے کا ایک کارآمد جزو بن کر سامنے آئے۔ لیکن افسوس اسی بات کا ہے کہ ہمارے ہاں حوصلہ افزائی کے بجائے حوصلہ شکنی کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔

   اپنی شخصیت کو ان مشوروں سے نکھارئیے

یہ کام والدین بھی کرتے ہیں۔ یہی کام خاندان بھی کرتا ہے، استاد بھی کرتے ہیں۔ بچے زندگی بھر دوسروں کے معیار پر پورا اترنے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔ وہ دوڑ جس میں یہ اپنے آپ کو کھو دیتے ہیں۔ یہ دوڑ جیت جانے والا بھی خوش نہیں اور ہار جانے والے کو ہم لوگ خوش ہونے کا حق ہی نہیں دیتے۔ کبھی کبھی لگتا ہے ہم سے اچھی تربیت اور پرورش تو افریقہ کے گھاس کے میدانوں کے شیر اپنے بچوں کی کرتے ہیں۔ بھلے وہ جانور ہی ہیں لیکن ان میں اعتماد تو ہوتا ہے۔

5/5 - (1 vote)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

اس تحریر کی مصنفہ اردو ادب میں ماسٹر کرنے کے بعد ایک نجی تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اپنے لکھنے کا با قاعدہ آغاز سال 2021 سے کیا اوراب تک کئی میگزینز میں ان کی تحاریر شایع ہو چکی ہیں۔