کردار سازی

کیا واقعی رشتے بھی ڈسپوزیبل ہوتے ہیں؟

ڈسپوزیبل انگریزی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ہیں قابلِ تلف۔ عام طور پر ڈسپوزیبل کا لفظ ایسی چیزوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جنہیں ایک بار استعمال کرنے کے بعد آسانی سے تلف کیا جا سکے۔ ڈسپوزیبل برتن کی اصطلاح تو سب نے سن رکھی ہو گی لیکن یہ ڈسپوزیبل رشتے کیا ہوتے ہیں، یہ ہم آج جاننے کی کوشش کریں گے۔ 

میرے قارئین سوچ رہے ہوں گے کہ کیا واقعی رشتے بھی ڈسپوزیبل ہوتے ہیں یا ہو سکتے ہیں؟ تو اس سوال کا جواب ہے "ہاں”۔ جی ہاں، رشتے بھی ڈسپوزیبل ہوتے ہیں۔ 

اب بڑھتے ہیں آپ کے ذہنوں میں اٹھنے والے اگلے سوال کی جانب۔ اور یقیناً آپ کے ذہن میں اس وقت سر اٹھانے والا سوال ہو گا "کیسے”؟ آخر رشتے کیسے ڈسپوزیبل ہو سکتے ہیں؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ انسان نے اپنی سہل پسندی کی عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر زندگی میں بہت سے شارٹ کٹس ایجاد کیے ہیں۔ یہ ڈسپوزیبل رشتے بھی انسان کی سہل پسندی کی ہی ایجاد ہیں۔ 

آج کے ڈیجیٹل دور کا ڈیجیٹل انسان اس قدر  مادہ پرست ہو چکا ہے کہ ہر چیز کو نفع اور نقصان کی عینک سے دیکھنے کا عادی ہے۔ مصروفیات اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ کسی کے پاس نفع و نقصان کے علاوہ کچھ سوچنے کا بھی وقت نہیں ہے۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کہ یہ مادیت پرستی فقط اشیاء تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ رشتوں کو بھی ناسور بن کر اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔  

آج کے مادہ پرست انسان نے ضرورت کو اس قدر سر پہ سوار کر لیا ہے کہ رشتوں کا تقدس تک بھول بیٹھا ہے۔ آج تعلقات فقط ضرورت اور مفاد کے محتاج ہو کے رہ گئے ہیں۔ جب تک ضرورت ہو، یا پھر مفاد وابستہ ہو، تب تک تعلق اور رشتے پوری شد و مد سے قائم رکھے اور نبھائے جاتے ہیں۔ لیکن جونہی ضرورت اور مفاد پورا ہو جائے تو اُنہی رشتوں کو بڑی ہی سہولت سے اپنی زندگی سے نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ڈسپوز کر دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی رشتوں کو "ڈسپوزیبل رشتے” کا نام دیا جاتا ہے۔ 

رشتے اور برتن، بظاہر ان دونوں کا آپس میں ہمیں کوئی تعلق نظر نہیں آتا، لیکن ذرا سا غور کیا جائے تو یہ پتا چلتا ہے کہ ان دونوں کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ 

ویسے تو گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہر چیز میں تبدیلی آئی ہے۔ لیکن برتنوں اور رشتوں میں آنے والی تبدیلی ایک دوسرے سے مشروط نظر آتی ہے۔ آج سے تقریباً بیس پچیس سال پہلے خالص مٹّی کے بنے ہوئے برتن عام استعمال کیے جاتے تھے۔ صحت افزا ہونے کے ساتھ ساتھ یہ مٹّی کے برتن سادگی اور اخلاص کی علامت بھی سمجھے جاتے تھے۔ بالکل ان مٹّی کے برتنوں کی طرح اُس دور کے رشتے بھی سادہ اور خالص ہوا کرتے تھے۔ ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک، خلوص اور محبت کے جذبات سے بھرپور۔ سچائی اور سادگی کا یہ عالم ہوتا تھا کہ کیا اپنے اور کیا غیر، سب کے دلوں میں سب کے لیے صرف اخلاص ہی پایا جاتا تھا۔

  اپنی عزتِ نفس پر کبھی سمجھوتہ نہ کریں۔

پھر وقت بدلا۔ ہم نے آہستہ آہستہ ترقی کے زینے طے کرنے شروع کئے اور مٹی کے برتن ہمارے لیے باعثِ شرمندگی بن گئے۔ اُن کی جگہ سٹیل کے مضبوط برتن آ گئے۔ برتنوں سے سادگی گئی تو دلوں سے اخلاص بھی کم ہونے لگا۔ بظاہر مضبوط نظر آنے والے رشتوں میں شور سا اٹھنے لگا۔ سٹیل کے برتنوں جیسا شور۔

پھر ہم نے مزید ترقی کی، اور سٹیل سے کانچ تک کا سفر طے کیا۔ اپنے ظاہر کو بہتر سے بہتر بنانے کے چکر میں ہم نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا کہ اس بار ہمارا انتخاب کتنا نازک تھا۔ شیشے کے برتنوں کو حد درجہ احتیاط کی ضرورت رہنے لگی۔ بس ایک ٹھوکر، ایک بے احتیاطی اور کانچ کرچی کرچی۔ ان کانچ کے برتنوں کی طرح رشتے بھی اتنے ہی نازک ہوتے چلے گئے۔ 

اسٹیل کے برتنوں سے اٹھنے والا شور رشتوں کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتے کرتے کانچ کے دور میں اتنا کمزور کر گیا کہ بس ایک جملے کی ٹھوکر سے رشتے بکھرنے لگے۔ اور بکھرتے بھی ایسے کہ جنہیں پھر ساری عمر کی محنت کے بعد بھی جوڑا نہ جا سکے۔

کانچ کا دور گزرا تو انسان نے اپنی اب تک کی تاریخ کے سب سے سیاہ ترین دور میں قدم رکھا اور یہ دور ہے "ڈسپوزیبل برتنوں” کا دور۔ آج کے دور کے مصروف انسان کے پاس اتنا واقف نہیں ہے کہ وہ برتنوں کو بار بار دھونے میں اپنا قیمتی وقت اور توانائی ضائع کرتا رہے۔ لہٰذا آج کے مصروف ترین دور کی ضرورت کے پیشِ نظر ڈسپوزیبل برتن ایجاد کیے گئے۔ جنہیں ایک بار استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے۔ اور افسوس کہ ہر دور کی طرح اس دور میں بھی انسان نے برتنوں اور رشتوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنے کی اپنی روایت بد ستور برقرار رکھی اور رشتوں کو بھی استعمال کر کے پھینکا جانے لگا۔

آج کے دور کے رشتے مفاد اور ضرورت کے محتاج ہو کر رہ گئے ہیں۔ کانچ کے دور میں نازک رشتوں کو بچانے کے لئے کم از کم کچھ احتیاط تو کی ہی جاتی تھی لیکن آج کا انسان اس قدر بے حس ہو چکا ہے کہ مفاد پورا ہو جانے کے بعد رشتوں کو ڈسپوز کرنے سے پہلے ایک بار بھی نہیں سوچتا اور نہ ہی پھینکنے کے بعد پلٹ کر دیکھنے کی ہی زحمت گوارا کرتا ہے۔ 

  لوگوں سے ڈرنے والی کیفیت کیوں ہوتی ہے؟

آپ چاہے کتنے ہی ذہین، کتنے ہی خوبصورت اور کسی کے لیے کتنے ہی مخلص کیوں نہیں ہوں، آپ اہم صرف تب تک ہیں جب تک کسی کا مفاد آپ کی ذات سے وابستہ ہے۔ جب تک آپ کسی کے کام آ رہے ہیں۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں، مانیں یا نہ مانیں لیکن آج کے سفاک دور کی حقیقت یہی ہے کہ انسان کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ قیمت ہے تو فقط مفاد کی۔ 

ویسے تو انسان نے اپنی سہل پسندی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے زندگی میں بہت سے شارٹ کٹس ایجاد کیے ہیں۔ لیکن یہ سہل پسندی کی عادت اب ایک خطرناک صورتِ اختیار کر چکی ہے۔ ڈسپوزیبل کے بعد آنے والا دور ناجانے کتنا خطرناک ہو گا؟ اگر ہم دنیا کو صحیح معنوں میں امن کا گہوارہ بنانا چاہتے ہیں اور اپنی آئندہ نسلوں کو آنے والے دور کی سفاکیت سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں مادیت پرستی کی اس عفریت کی زنجیر کو توڑنا ہو گا۔ اور اس کی ابتدا ہمیں خود اپنی ذات سے کرنی ہو گی۔

سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ کہیں آپ بھی کسی کو ڈسپوزیبل رشتہ سمجھ کر استعمال تو نہیں کر رہے۔ اگر ایسا ہے تو فوراً سے پیشتر اُس شخص سے جا کے معذرت کریں اور اُس شخص سے وابستہ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوئی متبادل ذریعہ تلاش کریں۔ اُس کے بعد اپنے حلقہء احباب کا جائزہ لیں اور یہ دیکھیں کہ کہیں کوئی آپ کو ڈسپوزیبل رشتے کے طور پر استعمال تو نہیں کر رہا۔ اگر ایسا ہو تو متعلقہ شخص کو آگاہ کر کے اسے سمجھانے اور اس غلط رویئے کو ترک کرنے کی ترغیب دیں۔ کسی بھی صورت اس زنجیر کے پھیلنے کے لیے کڑی نہ بنیں۔ بلکہ اس کا سد باب کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ 

4.2/5 - (6 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

اس تحریر کی مصنفہ اردو ادب میں ماسٹر کرنے کے بعد ایک نجی تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اپنے لکھنے کا با قاعدہ آغاز سال 2021 سے کیا اوراب تک کئی میگزینز میں ان کی تحاریر شایع ہو چکی ہیں۔