رہنمائی

کیا آپ بنا کاز کے ایفیکٹ کی آس لگائے بیٹھے ہیں

ہم دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے ہر ہر کام کو دیکھیں، اُس پہ غور کریں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ یہ پوری دنیا کاز اور ایفیکٹ کے فارمولے پہ چل رہی ہے۔ کیسے، اُس بات کی وضاحت کرنے کے لئے میں چند مثالیں پیش کرتی ہوں۔

دن رات اپنے مقررہ اوقات میں آتے جاتے ہیں۔ اس کی کاز یعنی وجہ کیا ہے؟ زمین کی گردش۔

زمین  کی سورج کے گرد گردش ایک کاز ہے، وجہ ہے، اور دن رات، موسموں کا تغیر و تبدل ایفیکٹ ہے۔ یعنی زمین کی گردش کے نتیجے میں وجود میں آنے والی ایک تبدیلی۔ یا ایک ردِ عمل۔

اگر زمین گردش کرنا بند کر دے، تو ایک ہی وقت ہر جگہ ٹھہر جائے گا۔ دن اور رات کے آنے جانے کا سلسلہ رک جائے گا۔ اسی طرح زمین کے ہر ہر حصے میں جو موسم ہو گا، وہی ٹھہر جائے گا۔ تبدیل نہیں ہو گا۔ کیونکہ زمین کی گردش کا عمل رک گیا تو اُس کا ردِ عمل بھی خود بخود رک جائے گا۔

اُمید ہے میں اپنی بات سمجھانے میں کامیاب رہی ہوں۔ اسی بات کو ایک اور مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم جب سے ہوش سنبھالتے ہیں، اپنے آس پاس تقریباً ہر انسان کو کوئی نہ کوئی کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ آپ کے گھر میں آپ کے والد یا بھائی یا آپ خود کمانے کے لیے باہر جاتے ہیں، اور جو کچھ کما کر لاتے ہیں، اُس سے گھر کے اخراجات وغیرہ پورے کرتے ہیں۔ لیکن آپ کیوں کماتے ہیں؟ بنیادی طور پر اس کمانے کے پیچھے کیا وجہ ہے؟

اس کی وجہ آپ کی ضروریات ہیں۔ قدرت نے آپ کے پیٹ میں بھوک رکھی ہے۔ جسم کی گروتھ کے لیے، بڑھوتری کے لیے قدرت نے کھانے پینے کا ایک نظام ہر جاندار کے جسم کے اندر رکھا ہے۔ جب جب آپ کے جسم کو توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، آپ کی بھوک کی صورت میں سگنل ملتا ہے اور آپ کچھ کھانے کے لیے تلاش کرتے ہیں۔

کھانا، کپڑا اور رہائش، یہ تین انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں اور انہی کے لیے انسان کماتا ہے۔ چاہے سخت سے سخت محنت ہی کیوں نہ کرنی پڑے، اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے انسان وہ محنت کرتا ہے۔

یہاں بھوک یا لباس آپ کے جسم کی ضرورت ہے، ایک کاز ہے،، اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے آپ کا کام کرنا ایفیکٹ ہے۔

  آن لائن کاروبار کرنے سے پہلے یہ کام لازمی کریں

اگر یہ ضروریات نہ ہوتیں، تو کسی انسان کو کمانے کی فکر نہ ہوتی۔ اور یہ فکر نہ ہوتی تو دنیا کے مختلف پیشے وجود میں نہ آتے، اور اس طرح دنیا کا نظام جو آج ایک متوازن طریقے سے چل رہا ہے، ایسے نہ چل پاتا۔ حاصلِ بحث یہ ہے مختصر الفاظ میں کہ کسی بھی نتیجے یا ایفیکٹ کو حاصل کرنے کے لیے اُس کے کاز کا ہونا شرط لازم ہے۔ کاز اور ایفیکٹ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔

کاز کے بغیر ایفیکٹ نہیں ہو سکتا، اور ہر کاز کا ایفیکٹ ہر صورت میں نکلے گا، اچھا یا برا، جیسا کاز ہو گا، ویسا ہی اُس کا ایفیکٹ ہو گا۔

عنوان اب کسی قدر واضح ہو چکا تو میرا سب قارئین سے ایک سوال ہے کہ  کیا آپ نے اپنے آپ کو کوئی کاز دیا ہے؟ ایسا تو قطعاً نہیں ہو سکتا، کہ آپ پانچ سال ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں، صرف دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ، مجھے گاڑی دے دے، گھر دے دے، یہ دے دے، وہ دے دے۔ اور کچھ نہ کریں۔ اور پانچ سال گزرنے کے بعد جب ان میں سے کچھ بھی نہ ملے تو آپ مایوس ہو کر اللہ پاک سے شکوہ کرنے لگیں کہ میں نے تو اتنے خلوص سے دعا مانگی تھی، پھر میری دعا قبول کیوں نہیں ہوئی؟

تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ بنا کاز کے ایفیکٹ کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ دعا کاز نہیں ہے۔ کچھ بھی حاصل کرنے کے لیے صرف دعا سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ دعا میں بے شک بہت طاقت ہیں، لیکن تب جب آپ اپنی طرف سے پوری کوشش کر لیں، تمام اسباب اختیار کر کے اپنی طرف سے ایک کام کو کرنے یا کچھ حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش، محنت، سب کچھ کر لیں،، اُس کے بعد دعا کریں، کہ یا اللہ جو میرے بس میں تھا، میں نے کر دیا، باقی آپ پہ کرنا ہے، مجھے میرے مقصد میں کامیاب فرمائیں۔ تب آپ کو اپنے متوقع نتائج ملیں گے۔ بنا محنت اور کوشش کے صرف دعا کے ذریعے قدرت سے اُمید لگانا بیوقوفی ہے۔

قدرت نے تو خود ہر چیز کاز اور ایفیکٹ کے فارمولے کے تحت بنائی ہے۔

بارش بلاوجہ نہیں برستی، پہلے دریا اور سمندر کی سطح سے پانی بخارات بن کر اوپر اٹھتا ہے، ہوا کے دوش پہ سوار ہو کر ٹھنڈے علاقوں کی طرف جاتا ہے۔ جہاں درجہ حرارت کی تبدیلی کے باعث کنڈینس ہو کر بادل بنتے ہیں، پھر اُسی ہوا کے دوش پر سوار ہو کر بادل اُن علاقوں میں جاتے ہیں جہاں پانی کی کمی اور ضرورت ہوتی ہے۔ پھر کیا ہوتا ہے۔  بارش کا پانی خشک زمینوں کو سیراب کرنے کے بعد نالوں کے راستے پھر اُنہی دریاؤں اور سمندروں میں جا کے مل جاتا ہے جہاں سے بخارات بن کے اٹھا تھا۔

  اپنے کاروبار کو ایک برانڈ کیسے بنائیں؟

یہ سب قدرت کا ایک کرشمہ ضرور ہے، لیکن اس سب کے پیچھے کاز اور ایفیکٹ کا فارمولہ کارفرما ہے۔ صرف یہی نہیں، ہم جس جس بھی مظاہرِ فطرت کو دیکھیں، اُس کے پیچھے ہمیں یہی اصول نظر آئے گا۔

ہم سب کو چاہیے کہ اگر ہم زندگی میں کوئی مقام، کوئی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو اُس کے لیے ہمیں ان تھک محنت کرنا ہو گی۔ اپنی طرف سے کوئی کمی نہیں چھوڑنی ہو گی، اپنے مقصد کو پانے کے لیے ایک درست لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا اور پھر اپنا ہر قدم اُسی کے مطابق اٹھانا ہو گا۔ 

اور آخری بات، اگر آپ اسلام آباد جانے کے لیے لاہور والی بس کا ٹکٹ خرید کر بس میں سوار ہو گئے، چار، پانچ، چھے گھنٹے کے سفر کی صعوبت بھی اٹھائی، پھر بھی آپ اسلام آباد نہیں پہنچ پائیں گے۔

کیونکہ محنت کرنا لگ بات ہے، اور صحیح سمت کا تعین کرنا الگ بات ہے۔ اپنی محنت، مشقت صرف کرنے سے پہلے صحیح سمت کا تعین لازمی کریں ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اسلام آباد جانے کے لیے لاہور کی بس میں سوار ہو جائیں اور آخر کار شکوہ قدرت سے کریں کہ میں نے تو ٹکٹ بھی خریدا تھا، اتنا لمبا سفر بھی کیا اور نتیجہ کیا نکلا۔

5/5 - (2 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

اس تحریر کی مصنفہ اردو ادب میں ماسٹر کرنے کے بعد ایک نجی تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اپنے لکھنے کا با قاعدہ آغاز سال 2021 سے کیا اوراب تک کئی میگزینز میں ان کی تحاریر شایع ہو چکی ہیں۔