رہنمائی

دوستی  کرنے میں محتاط رہنا ضروری ہوتا ہے

شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے”بھائی سونا ہے  اور دوست ہیرا ہے”۔ سونا جتنی دفعہ مرضی ٹوٹے پھر جڑ جاتا ہے لیکن ہیرا ایک دفعہ ٹوٹ کر پہلے جیسا نہیں ہو سکتا ۔ یہ ہی وجہ ہے بھائی کے ساتھ جتنی مرضی ناراضگی ہو صلح ہونے پے پچھلا معاملہ حتم ہو جاتا ہے،  لیکن دوست کے ساتھ ایسا نہیں ہے ایک بار اختلاف ہو جائے تو معاملہ حتم صلح کے بعد بھی پہلے والی بات نہیں رہتی دلوں میں فرق آ جاتا ہے۔

یہ معاملہ جتنا نازک ہے اتنا حساس بھی ہے ۔ تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں بڑی بڑی جنگوں کی فہرست دیکھ لیں ، جو ملک ہارے تھے ،  وہ اس وجہ سے نہیں ہارے کہ وہ دوسرے سے کمزور تھا بلکہ اس وجہ سے ہارےکہ اس کے کچھ اپنے غدار ساتھی دشمنوں کے ساتھ ملے ہوے تھے اندر کی خبریں پہنچا رہے تھے۔یہ ہی معاملہ عام انسان کے ساتھ پیش آتا ہے ۔

وہ کہتے ہیں نا کہ جن پے تکیہ تھا وہ ہی پتے ہوا دینے لگے۔دشمن دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں انسان کو پتہ ہوتا ہے وہ ان کے شر سے بچنے کی کوشش کرتا ہے دوسرا وہ دوست نما دشمن ہوتا ہے جو اوپر اوپر سے دوستی کا دم بھرتا ہے تعریفیں کرتا ہے لیکن اندر زہر بھرا ہوا ہوتا ہے ۔ یہ آستین کا سانپ ہوتا ہے جو موقع ملتے ہی ڈھس لیتا ہے۔ایسے لوگ زیادہ نقصان پہنچاتے  ہیں،  کیوں کہ ان کا علم نہیں ہوتا ۔

چند دن پہلے میں نے خبر سنی کہ ٹیپو ٹرکاں والے کے بیٹے امیر بالاج کو ایک شادی کی تقریب میں قتل کر دیا گیا ہے۔جب اس کیس کو مشاہدے کی نگاہ سے دیکھا کہ وہ اتنی سیکیورٹی رکھتا تھا پھر بھی مخبری ہو گئی ضرور کوئی سنگی ساتھی شامل ہے ۔ میرا شک صحیح نکلا چند روز بعد ہی تفتیشی افسر کا انٹرویو سنا کہ مجرم تو بیرون ملک فرار ہو گے لیکن ان کا باورچی پکڑا گیا اس نے انکشاف کیا کہ امیر بالاج کا ایک دوست ملنے آتا تھا۔ میں تصویر سے پہچان سکتا ہوں اس کے بھائی نے تقریباً ساٹھ کے قریب دوستوں کی تصویریں بھیجی جن میں سے کوئی بھی نہیں تھا پولیس نے کہا دوبارہ چیک کریں کوئی رہ تو نہیں گیا تب اس کے بھائی نے کہا کہ ایک دوست رہ گیا لیکن وہ ہمارے گھر کے فرد جیسا ہے میری والدہ نے اس کو بیٹا بنایا ہوا ہے اس لیے اس کی تصویر نہیں بھیجی ۔پولیس نے کہا آپ بھیجیں پھر جب انہوں نے بھیجی تو اس باورچی نے پہچان لیا کہ یہ وہی تھا۔ جب مجرم پکڑا گیا تو اس نے بھی انکشاف کیا کہ میں نے امیر بالاج کی ریکی کرنے کی ڈیل پانچ کروڑ میں طے کی اور پچاس لاکھ لے کر سعودیہ چلا گیا۔قتل والے دن فون کر کے امیر بالاج کو ویڈیو کال پے اللہ کے گھر کی زیارت کروائی اور باتوں باتوں میں ساری معلومات لےکر شوٹرز تک پہنچائی ۔جب میں نے اپنے  شوہر کو یہ بات بتائی تو وہ بڑے حیران ہوے کہ دیکھو وہ بیٹھا کدھر ہوا تھا ، یعنی کہ اللہ کے گھر بیٹھ کر کیا کام کر رہا تھا۔اس واقعہ نے ہر انسان کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔جو دوست سب گھر والوں کی آنکھ کا تارا تھا اسی نے ہی دھوکہ دیا۔دھوکے دھوکے میں فرق ہوتا ہے کچھ دھوکے مالی نقصان کے ہوتے ہیں جو بعد میں پورے ہو جاتے ہیں۔ مگر  ہر دھوکے کا ازالہ ممکن نہیں ، جیسے اب امیر بالاج کی جان تو واپس نہیں آ سکتی۔

  اسٹیج پر تقریر کرنے کے خوف پر قابو پانے کے آسان طریقے

ہمیں دوست دیکھ بھال کر بنانے چاہیے کیوں کہ انسان ظاہری رویے سے تعلق کا اندازہ لگاتا ہے ، لیکن اسے کچھ معلوم نہیں کہ کس کے دل میں کیا ہے۔تو پھر ایسی صورتحال میں کیا کریں ۔ ہر کسی پے شک بھی نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے میں تو انسان اکیلا ہو جائے گا وہ کوئی کام نہیں کر سکتا۔تو پھر کون سی صورت اپنائیں۔ان چند باتوں پے عمل کریں۔

رازدار نہ بنائیں

میری امی کہتی ہیں ہمارے گاؤں میں ایک درزن تھی وہ کہتی تھی کہ وچلی گل نہیں دسی دی(اندر کی بات نہیں بتاتے)۔  یہ بڑا اہم پوائنٹ ہے عام انسان کو بھی یہ احتیاط کرنی چاہیے اور جو دشمنی دار ہے یا سلیبرٹی ہے اسے تو اس بات کی اپنے ذہن میں مشق کرنی چاہیے۔کسی بھی دوست کے ساتھ اپنے راز کے معاملات  نہ  بتایا کریں۔

تعلق میں محتاط رہیں

دوستی اور دشمنی ایک جذبے کا نام ہے اور جذبات بدلتے رہتے ہیں۔  کیا پتہ آج کا دوست کل کا دشمن ہو اور آج کا دشمن کل کا دوست ہو ۔ اس لیے دوستی میں بھی ایک حد سے نہیں بڑھنا چاہیے۔حد سے زیادہ بھروسہ اور انحصار پچھتاوے کا سبب بنتا ہے۔

  گلاب کانٹوں کے ڈر سے مرجھاتا نہیں ہے

دوست کو گھر کے معاملات سے دور رکھیں

لڑکوں کو چاہیے کہ کوئی دوست کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو اس کو گھر کے معاملات سے دور رکھیں ۔ بلکہ بیٹھک کے علاوہ بلا ضرورت گھر میں داخل نہ کریں۔لڑکیوں کو بھی چاہیے سہیلیوں سے محتاط رہیں ۔ ہم نے ایسے بھی  کیسیز دیکھیں ہیں جن میں دوست ہی بعد میں سوتن بن گئی تھی۔شوہر ہی لے اڑی۔خیر ان کے شوہروں کا بھی قصور ہو گا لیکن بعد میں پچھتانے کا کیا فائدہ ۔ احتیاط تو ان کو کرنی چاہیے تھی۔

غوروفکر کی عادت ڈالیں

زندگی بے وقوفی سے مت گزاریں ۔ اردگرد ہر رشتے میں تعلق میں غوروفکر کی عادت ڈالیں ۔ اگر کوئی دوست حد سے زیادہ پرسنل سوال پوچھ رہا ہے یا معاملات میں آنے کی کوشش کر رہا ہے تو فوراً محتاط ہو جائیں کہ اس کا کیا مقصد ہے جتنا نفسا نفسی کا زمانہ ہے مفت میں تو مشورہ بھی نہیں ملتا۔

دشمنی دار دوستی میں محتاط رہیں

اگر آپ کی دشمنی ہے۔  جان کو خطرہ ہے ۔ پہلے بھی حملے ہو چکے ہیں ، آپ سیکیورٹی میں آتے جاتے ہیں تو پھر آپ کو دوسروں سے کئی گنا زیادہ دوستی میں محتاط ہونا پڑے گا ۔ نہیں تو امیر بالاج کے دوست کی طرح کوئی دوست ہی پیسوں کی خاطر پیٹھ میں چھڑا گھونپ دے گا۔ایسے لوگوں کو فیملی سے باہر دوست بنانے ہی نہیں چاہیے ۔ بنائیں بھی تو اپنی نقل و حرکت اور معاملات کسی کو نہ بتائیں جو باتوں باتوں میں پوچھنے کی کوشش کرے اس کے حوالے سے محتاط ہو جائیں۔

4/5 - (15 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

اہلیہ محمد صدیق

اس تحریر کی مصنفہ ہاؤس وائف ہیں اور اپنے امور ِ خانہ داری کے ساتھ اچھا پڑھنے اور لکھنے کا شوق بھی رکھتی ہیں ۔ مختلف تحریری مقابلہ جات میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ انعامات بھی حاصل کرتی رہتی ہیں۔