تناؤ یا عُرفِ عام میں اسٹریس ہمارے معاشرے میں بری طرح سرایت کر چکا ہے ۔یہ ایک ایسا ناسور ہے جو گھن کی طرح ہماری اہلیت اور قابلیت کو چاٹ جاتا ہےاور ہم اپنے آپ پر ایک بوجھ بن کر رہ جاتے ہیں۔اگر تناؤ سے بروقت چھٹکارا نہ پایا جائے تو یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے دل و دماغ کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔بظاہر ہمیں کوئی بیماری لاحق نہیں ہوتی لیکن پھر بھی ہم اپنے آپ کو بیمار اور کمزور محسوس کرتے ہیں ۔
آئیے اب جائزہ لیتے ہیں کہ کون سے عوامل ہماری شخصیت میں تناؤ کا سبب بنتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے حل ہر بھی با ت کرتے ہیں۔
لا حاصل سوچ کو سوچتے رہنا۔
ایسی سوچ جس کا کوئی فائدہ نہیں ہے یا جس کے نتیجے میں کوئی عمل واقع نہیں ہو گا ایسی لا حاصل سوچ تناؤ کے سوا ہمیں کچھ نہیں دیتی۔اگر آپ واقعی زندگی میں کچھ ڈھنگ کا کام کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو بے فائدہ اور تھکا دینے والی سوچوں سے بچنا ہوگا تا کہ آپ کسی قسم کے تناؤ کا شکار نہ ہوں ۔
منفی سوچ میں کھو جانا ۔
بسا اوقات یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ ہر وقت جلی کٹی اور منفی باتیں کرتے رہتے ہیں ۔ دوسروں کے اچھے کاموں میں بھی منفی پہلو ڈھونڈ نکالتے ہیں ۔ایسے لوگ کبھی بھی پرسکون نہیں رہ سکتے ۔منفی سوچ دوسروں سے زیادہ خود کو بری طرح متاثر کر کے آپ کے دل و دماغ کو ہر وقت تناؤ میں رکھتی ہے ۔ اس لیے ہر بات اور ہر کام میں خیر کا پہلو تلاش کریں اور اپنی سوچ کو مثبت رکھیں۔
اپنی شخصیت کو نکھارئیے۔
پراگندہ ذہن اور پراگندہ بالوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اگر آپ صاف ستھرے اور پاکیزہ رہنے کے عادی ہیں تو آپ کی سوچ اور آپ کا ذہن بھی اُجلا اور پرسکون رہے گا۔اپنی شخصیت پر تھوڑی سی توجہ سے آپ کی سوچ اور عمل میں بھی نکھار آئے گا۔اسلام ہمیں اس لئیے پاکیزگی اور صفائی کا درس دیتا ہے کیوں کہ صاف رہنے سے ہمارا ذہن تروتازہ رہتا ہے اور اس میں سستی،کاہلی اور منفی جذبات نہیں ٹھہر سکتے۔
اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔
جب ہمارے پاس بہت سے کام ہوں تو بعض اوقات ہم اس لیے تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ کون سا کام پہلے سر انجام دیا جائے۔ کبھی ایک کام کو کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی دوسرے کام کو۔اور یہی کشمکش ہمارے لئیے تناؤ کی کیفیت پیدا کرتی ہے ۔ اس لیئے یہ ازحد ضروری ہے کہ اپنے کاموں کی ایک واضح فہرست تیار کریں اور یہ فہرست کاموں کی اہمیت کے مطابق ہو۔جو کام سب سے زیادہ ضروری ہو وہ سب سے پہلے رکھیں اور اسی طرح تمام کام ان کی اہمیت اور وقت کے مطابق ترتیب دیں ۔جو کام کرتے جائیں انھیں نشان زد ہ کرنا مت بھولیں ۔یہ مشق آپ کو نہ صرف تناؤ سے بچائے گی بلکہ آپ میں اعتماد اور مستقل مزاجی بھی پیدا کرے گی۔
کاموں کو التوا میں نہ ڈالیں۔
اگر آپ آج کا کام کل پر چھوڑنے کے عادی ہیں تو سٹریس اور تناؤ مستقل طور پر آپ کے ساتھ رہیں گے۔آج کا کام آج ہی کریں گے تو اپنے آپ کو ذہنی طور پر آزاد اور ہلکا پھلکا محسوس کریں گے۔ جو لوگ ایک وقت کا کام سستی اور کاہلی یا دیگر مشاغل کے باعث ملتوی کر دیتے ہیں اور اسی طرح پے درپے ان کا کام جمع ہوتا جاتا ہے تو یہ ایک بوجھ کی طرح ان کے دل و دماغ پر حاوی ہو جاتا ہے اور وہ تناؤ کے باعث کوئی ایک کام بھی مکمل کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔
بےجا توقعات کی بھرمار۔
کچھ جذباتی اور حسّاس لوگ اپنے سے متعلق لوگوں سے بہت زیادہ بےجا توقعات وابستہ کر لیتے ہیں ۔وہ اس حقیقت کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں کہ ہر انسان کی اپنی ترجیحات اور حدود ہوتی ہیں اور کوئی بھی انسان آپ کے احساسات و جذبات کے تابع نہیں ہوتا۔ حد سے زیادہ جذباتیت اور حساسیت ذہنی دباؤ اور تناؤ کا باعث بنتی ہیں۔ اس لیے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں اور اپنے آپ کو حتی الوسع پر سکون رکھنے کی کوشش کریں۔
بے ترتیبی اور بے دلی سے کام سرانجام دینا ۔
اگر آپ طالب علم ہیں یا نوکری کرتے ہیں تو اپنے شب و روز کو ایک ترتیب اور ایک مثبت جذبے کے ساتھ جینے کی کوشش کریں کیونکہ بے ترتیبی اور بے دلی آپ کو آگے نہیں بڑھنے دے گی بلکہ آپ میں تناؤ کی کیفیت پیدا کر دے گی جو آپ کے مستقبل کے لیے زہر قاتل کا کام کرے گی۔ وقت اور کام میں ہم آہنگی ہو تو ہر عمل خوش اسلوبی سے طے پاتا ہے لیکن جہاں وقت کی قدر نہ ہو ،شوق اور جذبے کا فقدان ہو وہاں صرف اور صرف سٹریس کے پیر جمتے ہیں۔
ذاتی پسند کو تر جیح دینا ۔
جب ہم ہر بات اور ہر عمل کو اپنی پسند،اپنی سوچ اور اپنے تناظر میں پرکھتے ہیں تو مسائل بڑھتے ہیں۔ کیوں کہ ضروری نہیں کہ دوسرے ہماری سوچ اور نقطہ نظر سے متفق ہوں ،ہر فرد الگ اور مختلف سوچ کا مالک ہے ۔اور ہر کسی کو اپنی رائے رکھنے اور اسے آزادانہ بیان کرنے کا حق حاصل ہے ۔ اس لیے کسی بھی جگہ بات کرتے ہوئے سب کی رائے کو سنیں اور اس کا احترام کریں ۔ اگر کوئی بات یا کسی کا عمل آپ کی پسند کے منافی یا خلاف ہے تو اسے اپنے اعصاب پر طاری کرنے کی بجائے عمومی اور غیر جانبدار رویہ اختیار کریں تاکہ غیر ضروری تناؤ کا شکار ہونے سے محفوظ رہ سکیں ۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔