حوصلہ افزائی

حالات خود ہی بدلنے پڑتے ہیں

رات بھر برستی بارش کے باعث گھر کے صحن میں پانی بھر چکا تھا۔ صبح کو بارش ذرا رکی تو قاسم بالٹی لے کر پانی نکالنے لگا۔ جب سے گلی اونچی ہوئی تھی، ہر بار بارشوں میں یہی مسئلہ ہوتا تھا۔ بوڑھی ماں روز روز بیٹے کو یہ مشقت کرتے دیکھ کر کڑھتی رہتی۔ اگرچہ اُن کے حالات کافی خراب تھے لیکن قاسم کو یقین تھا کہ بس کچھ دن بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔ 

پانی نکال کر جب قاسم فارغ ہوا تو آسمان پر بادل چھٹتے دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا اور قریبی چوک پر واقع اپنی دکان کی راہ لی۔ دکان کیا تھی بس ٹین ڈبے کا ایک کھوکھا تھا جس میں چند ٹائر ٹیوب، ہوا بھرنے کے لئے دستی پمپ اور پنکچر لگانے کے لیے دو چار اوزاروں کے سوا کچھ نہ تھا۔ دکان کھول کر جھاڑ پونچھ کرتے ہوئے اُس کی نظر سامنے والے کھوکھے میں بیٹھے کریم چاچا پر پڑی جو جوتا مرمت کر رہے تھے۔ قاسم کو کریم چاچا کچھ پریشان سے لگے۔ وہ اُن کے پاس گیا اور سلام دعا کے بعد پریشانی کی وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ رات موسلادھار بارش میں اُن کے گھر کی دیوار گر گئی۔ وہ یہ سن کر بہت افسردہ ہوا لیکن چاچا کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ بس کچھ دن کی بات ہے۔ کچھ دن بعد سب ٹھیک ہو جائے گا۔ 

صبح سے شام تک دکان پر بیٹھے رہنے کے باوجود محض دو سو روپے کی کمائی ہوئی تھی۔ دکان بند کر کے وہ سودا سلف لینے کی غرض سے کریانے کی دکان پر آیا۔ دال اور گھی لے کر جانے ہی لگا تھا کہ نظر دکان میں کام کرنے والے بارہ سالہ حسن عرف چھوٹے پر پڑی۔ جو کونے میں کھڑا اپنی میلی سی قمیض کی آستین سے آنکھوں میں آئے آنسو پونچھ رہا تھا۔ قاسم کے قدم زنجیر ہوئے۔ اُس نے چھوٹے کو پاس بلا کر رونے کی وجہ پوچھی تو اُس نے بتایا کہ اُس کی ماں بیمار ہے، باپ مر چکا ہے اور گھر میں کمانے والا کوئی نہیں ہے۔ اُسے چھوٹے پر بہت ترس آیا۔ اُس نے دو سو میں سے بچے ہوئے پچاس روپے چھوٹے کے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے پیار سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور یہ کہہ کر اُسے تسلی دی کہ وہ فکر نہ کرے۔ کچھ دن میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ 

  دنیا آپ کا ساتھ کب دیتی ہے؟

بالآخر کچھ دن گزر گئے۔ قاسم یہ سوچ کر بہت خوش تھا کہ کل کا سورج اُس کے اور اُس جیسے باقی شکستہ حال لوگوں کے لیے خوشحالی لے کر آئے گا۔ وہ بے صبری سے صبح کا منتظر تھا۔ صبح ہوئی تو وہ سورج کا خیر مقدم کرنے کے لیے چھت پہ چلا آیا۔ لیکن جب سورج نکلا تو وہ کچھ حیران ہوا۔ کچھ سوچتے ہوئے اُس نے لمبے لمبے سانس لیے تو ہر روز کی طرح دھوئیں اور بارود کی بُو پھیپھڑوں میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اُس کا دل بےچین ہونے لگا۔ وہ نیچے اُترا اور کریم چاچا کے گھر کی طرف دوڑا۔ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ اُن کی دیوار ابھی تک گری ہوئی تھی اور اُس کے پار ایک رسی کی مدد سے کپڑے کی چادریں باندھ کر پردہ بنا ہوا تھا۔ اُسے اپنے اندر کچھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا۔ شاید اُمید دم توڑنے لگی تھی۔ 

وہ واپس پلٹا تو راستے میں کریانے کی بند دکان کے سامنے چھوٹے کو بیٹھا دیکھا۔ ٹوٹتی اُمید کا ایک سرا تھامے اُس کے پاس گیا اور  ماں کا حال پوچھا تو معلوم ہوا کہ اُن کی طبیعت کل رات سے بہت خراب تھی۔ چھوٹا دکان کے مالک سے اُدھار پیسے لینے کی غرض سے یہاں بیٹھا تھا تاکہ اُن کی دوائی لے سکے۔ 

  اداسی یا مشکل میں ان تین باتوں کا احساس کریں

 چھوٹے کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں بے انتہا کرب دیکھ کر قاسم کا دل کٹ کر رہ گیا۔ شکوہ کناں نظریں آسمان کی طرف اٹھائیں تو دیکھا کہ بادل پھر سے اکٹھے ہو رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔ وہ گھر پہنچا تو سرتاپا بھیگا ہوا تھا۔ جیسے ہی صحن میں قدم رکھا، پاؤں پانی میں ڈوبتے محسوس ہوئے۔ سوچوں کا ارتکاز ٹوٹا اور اُس نے دیکھا کہ صحن آج پھر پانی سے بھر چکا تھا۔ وہیں کھڑا وہ سوچنے لگا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ آج تو نیا سال شروع ہونا تھا۔ سال تو بدل گیا، حالات کیوں نہیں بدلے؟ 

ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ کمرے سے نکلتی اُس کی بوڑھی ماں نے اُسے بارش میں بھیگتا دیکھ کر اندر بلایا۔ شکست خوردہ انداز میں قدم اٹھاتا وہ اندر آیا تو نظر دیوار سے لگے کیلنڈر پر پڑی۔ اُس نے دیکھا کہ صرف ایک ہندسے کے سوا کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔ 

بھلا ہندسوں کے بدلنے سے حالات بھی کبھی بدلے ہیں۔ حالات تو خود بدلنے پڑتے ہیں۔ مسلسل محنت اور کوشش سے۔ یہ سوچ کر وہ اٹھا اور بالٹی لے کر صحن سے پانی نکالنے لگا۔ 

4.3/5 - (6 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

اس تحریر کی مصنفہ اردو ادب میں ماسٹر کرنے کے بعد ایک نجی تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اپنے لکھنے کا با قاعدہ آغاز سال 2021 سے کیا اوراب تک کئی میگزینز میں ان کی تحاریر شایع ہو چکی ہیں۔