کردار سازی

کسی کی تعریف بھی کردیا کریں

 ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا لفظ بہت استعمال ہوتا ہے ۔ جس کی وجہ سے بگاڑ بھی پیدا ہوتا ہے اور یہ لفظ ہی ہوتے ہیں جو زبان سے ادا ہونے کے بعد جنگ و جدل کا ماحول بنا دیتے ہیں یا پھر صحرا میں بھی پھول کھلا دیتے ہیں ۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولو ۔

موضوع الفاظ کا انتخاب ہی انسان کو صاحب طرز بناتا ہے۔ سنگ تراش کا فن پتھر میں چھپے ہوئے نقش اجاگر کرتا ہے ۔اسی طرح الفاظ سے مضمون اور مضامین سے الفاظ کے رستوں کا علم ہی انسان کو مصنف بناتا ہے ۔دنیا میں اصل قوت الفاظ کی ہے الفاظ کی طاقت قدم قدم پر عیاں ہوتی ہے ۔ قوموں کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے الفاظ کا تازیانہ ہی کافی ہے۔

 مولانا روم فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ دو قافلے صحرا کے قریب آ کر ٹھہرے ایک مسلمانوں کا دوسرا یہودیوں کا تھا ۔مسلمانوں کے قافلے نے صبح کے وقت جب اذان کہی تو کچھ ہی دیر کے بعد یہودیوں کی طرف سے ایک نمائندہ انتہائی بیش قیمتی تحائف لے کر امیر قافلہ کے پاس حاضر ہو کر شکریہ کے ساتھ عاجزی کے ساتھ کچھ تحائف پیش کرنے لگا ۔وجہ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ یہودی سردار کی بیٹی نے اسلام قبول کیا تھا اور اس کو اسلام سے ہٹانے کے لیے اس کے قریب رفقاء علماء اور والدین یہودی خاندان نے بہت کردار ادا کیا کہ وہ اسلام سے پھر جاۓ۔ لیکن اس میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی لیکن آج جب مسلم قافلے کی طرف سے دی جانے والی اذان کرخت لہجے میں دی گئی تو وہ عورت اپنے دین کی طرف واپس پلٹ آئی ۔نتیجہ یہ تھا کہ موذن و مبلغ خوش الحان ہونا چاہیے ۔

  دوسروں کے دل جیتنے کا طریقہ

دعوت کے افکار انداز اور لفظوں کے چناؤ سے ہٹ کر لہجے کی گرختگی اور نرمی بھی اکثر اوقات آپ کو بدزن کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ الفاظ کے چناؤ پر ہی ایک اور قصہ بھی پڑھ لیں کہ ایک بادشاہ نے دست شناس یعنی ہاتھ دیکھنے والے کو بلوایا اور اس شخص نے جب بادشاہ کا زائچہ بنایا تو یہ کہا کہ جہاں پناہ آپ اپنے خاندان کو اپنی انکھوں کے سامنے مرتا ہوا دیکھیں گے اور ان جملوں کی ادئیگی کے بعد بادشاہ انتہائی سیخ پاء ہوتے ہوئے غصے میں آگیا اور اس نے اس دست شناس کو گرفتار کر کے بند کرنے کا حکم دیا اور پھر اعلان کروایا کسی اور شخص کو تلاش کیا جائے۔ پھر دوسرا دست شناس آیا اس نے جب بادشاہ کا ہاتھ دیکھا تو اس نے بتایا کہ بادشاہ سلامت آپ کی عمر لمبی ہوگی اور جی بھر کر جیئں گے بادشاہ بڑا خوش ہوا اور کہا آپ انعام کے طور پر مانگیے مجھ سے کیا مانگتے ہیں ؟ تو اس شخص نے کہا کہ مجھے پیسے نہیں چاہیے بس آپ کی قید و بند میں جونجومی ہے اس کو آزاد کر دیں بادشاہ نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ اصل میں وہ میرے انتہائی قابل صد احترام استاد ہیں بات میں نے بھی وہی کہی جو انہوں نے کہی لیکن ان کے اور میرے لفظوں میں فرق یہ تھا انہوں نے کہا کہ آپ اپنے خاندان کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتا ہوا دیکھیں گے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی عمر کم ہوگی اور اپ کی عمر زیادہ تو میں نے اپ کو صرف یہ کہا کہ حضور آپ کی عمر زیادہ ہوگی اس کا مطلب ہے آپ لمبی عمر کے ساتھ زندہ رہیں گے ان سے لفظوں کے چناؤ میں یہ کمی رہ گئی کہ وہ لفظوں کے انتخاب میں محتاط نہ رہ سکے ۔

  محبت میں بے وفائی کے بعد خود کو کیسے سنبھالا جاے

اس لیے ہمیں خود بھی الفاظ کا استعمال کرتے وقت اپنی زبان میں مٹھاس اور لہجے میں شیرینی رکھنی چاہیے۔ کسی کی بری بات بھی برے انداز میں منہ پر نہیں کہنی چاہی۔ے ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ گلی محلوں میں بچوں کی توں تکرار سے شروع ہونے والی لڑائی خاندانوں کے خاندان اجاڑ دیتی ہے۔ اس لیے دوسروں سے بات کرتے وقت اپنی زبان کو قابو میں رکھتے ہوئے کسی کی دل آزاری بھی نہیں کرنی چاہیے ۔بلکہ ہمیشہ ایک دوسروں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ کسی کی دو لفظوں میں تعریف کردیں تو اسکا خوشی سے خون بڑھ جاتا ہے اور بے جا تنقید کرنے سے مایوسی بڑھتی ہے جو انسان کو جرائم کی طرف مائل کردیتی ہے۔

5/5 - (2 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔