اس وقت ہمارے معاشرے میں درس و تدریس کا شعبہ بہت تنزلی کا شکارہے۔ بیش تردیہی علاقوں میں اسکول نہیں اور اگر اسکول ہیں بھی تو اساتذہ نہیں، ان کی صرف کاغذی موجودگی ظاہر ہوتی ہے اور وہ گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں اور اسکولوں میں گائیں، بھینسیں بندھی ہوئی ہیں۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہمارے یہاں انٹرآرٹس میں مضامین کی کمی ہے علم شہریت، نرسنگ، عمرانیات ، شماریات، تعلیم، بریل، جغرافیہ، معاشیات، خانہ داری، تاریخ اسلام، معاشیات، تاریخ عام، اسلامک اسٹڈیز، نفسیات اُردو اختیاری، سنذھی اختیاری، انگریزی اختیاری، عزبی، فارسی، ریاضی، کمپیوٹر سائنس، فنون لطیفہ، صحت وجسمانی تعلیم، منطق اور لائبریری سائنس جیسے مضامین موجود ہیں اور بارہویں تک کے طلبا و طالبات انہیں پڑھ کر آگے جاکر چار سالہ بی ایس پروگرام میں مزید پڑھتے ہیں، مگر سوال وہی ہے کہ اگر اتنے مضامین موجود ہیں تو پھر معاشرے میں فکری، آگاہی اور سماجی شعورکی کمی کیوں نظر آرہی ہے۔ دراصل اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طلبا جدیدتعلیم سے نا آشنا ہیں۔
عمر رسیدہ اساتذہ کے شعبے سے منسلک ہیں اُن کا طریقہ تعلیم وہی پرانے طرز پر ہے ۔ درسی کتب میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی دیکھنے میں نہیں آتی۔ طلبا کو جدید علوم سے آشنا کرنا بہت ضروری ہے، جس کے لیے تعلیمی نظام کی درستگی توجہ طلب ہے۔ جب ہم میٹرک کر رہے تھے تو شام میں اس اسکول کے ہی اساتذہ کرام کسی معاوضے کے بغیرپڑھائی میں مدد کردیتے تھے۔ ان کا مطمع نظر صرف اور صرف درس و تدریس تھا۔ اپنے طلبا میں اپنے علم سے شعور و آگہی کی روشنی پھیلانا تھا ، تعلیمی مدارج میں آسانیاں فراہم کرنا تھا ،مگر آج کے دور میں طلبا ٹیوشن سینٹر کی جانب رواں دواں ہیں جوکہ افسوسناک صورتحال ہے۔
کہاجاتا ہے کہ درس و تدریس کے شعبے میں تنخواہیں کم ہیں۔ موجودہ معاشی و مہنگائی کے اعتبار سے یقینا کم ہیں۔ جب ہی تو نوجوان طبقہ اس شعبے سے دور ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد بےروزگاری سے پریشان ہیں ، کیا وہ درس و تدریس سے منسلک ہوکر آنے والی نسل کا مستقبل روشن نہیں کرسکتے ، دراصل آج کل وائٹ کالر ملازمت کے سب متمنی ہیں۔ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ آسائش حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لڑکیاں پھر بھی اس شعبے کا رخ کر لیتی ہیں لیکن لڑکے اس جانب آنے سے کتراتے ہیں۔
کچھ نوجوان اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے پرائیوٹ اسکولوں میں اس شعبے سے وقتی طور پر منسلک تو ہوجاتے ہیں لیکن مستقبل کا خواب کچھ اور ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت وقت کو بھی سوچنا ہوگا۔ کیونکہ تعلیم کے فروغ میں صرف اور صرف حکومتیں عمل درآمد کرتی ہیں۔ اقوام عالم میں جتنی بھی اقوام نے ترقی کی ہے، وہ صرف اور صرف حکومتی سطح پر تعلیم پر زور کی بناء پر ہوئی ہے۔
ہمارے نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ وہ درس وتدریس کے شعبے کو اپنالیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ اس شعبے میں روزگار فراہم کرنے میں ان سے تعاون کریں۔ جب وہ خود معلم بن جائیں گے تو فکر و شعور کی مزید آگہی ہوگی ، ان کا کردار بلند ہوگا، مزید تحقیق و جستجو کی لگن بڑھے گی، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیق کا کام سرانجام دےسکیں گے۔ اس وقت نہ صرف سائنس میں بلکہ دیگر سماجی، آرٹس کے مضامین میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے، اس خلاء کو نوجوان ہی پرکر سکتے ہیں۔
کالجز اور جامعات میں اساتذہ تو ہیں، مگر وہ اپنا مقررہ وقت پورا کرچکے ہیں اور درس وتدریس کے وہی پرانے طریقے اپنائے ہوئے جس سے طلبا مطمئن نہیں۔ وہ ایک لگے بندھے ڈگر پر چل رہے ہیں۔ اس وقت محنتی اور نوجوان اساتذہ کی ضروت ہے تو پھر سوچئے کہ کس قدر ہونہار، باشعور، شاگرد ان اداروں سے نکلیں گےجب ان کی تربیت محنتی نوجوان اساتذہ کرام کے ہاتھوں ہوئی ہوگی۔
سچے جذبے کے ساتھ آپ تعلیمی پیشہ اپنائیں ۔تعلیمی شعبہ سے جڑ کر آپ اپنی تحقیقی صلاحیت، ذہنی وسعت، ذہنی صلاحیت کی وسعت میں بھی اضافے کرسکیں گے۔ نوجوان، آنے والے نسلوں کی تعلیم و تربیت میں اپنا کردارادا کریں جس کے بنا پر ہمارا تعلیمی نظام بھی بہتری کی طرف گامزن ہوگا۔ تعلیم کے فروغ میں مدد ملے گی۔ تعلیم کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا اور ہمارا ملک بھی تعلیم یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہوسکے گا۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔