نیا شادی شدہ جوڑا زندگی کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لیے سمندر کی لہروں سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور ساحل کی ٹھنڈی ہوائیں بتا رہی تھی کہ زندگی بہت خوبصورت ہے۔ کیونکہ شام ہو چکی تھی ہانیہ اور جنید نے سمندر کی لہروں اور ساحل کی ٹھنڈی ہواؤں کو الوداع کہا اور اپنی موٹر بائیک پر گھر کی راہ لی۔ منزل تو دور نہ تھی اگر دونوں ڈکیتوں نے صرف موبائل چھین لینے پر ہی اکتفا کیا ہوتا، مگر ان ظالموں نے تو گولی چلانے میں بھی دیر نہ کی ۔ قدرت کو جو منظور تھا وہ ہونا ہی تھا۔ ریوالور کی گولی سے تو جان بچ گئی مگر جس طرح موٹر بائیک اس کے اوپر آگری۔۔۔ جنید کی ریڑھ کی ہڈی اس قابل نہ رہی کہ اٹھ کر کھڑا ہوتا۔ لوگوں کے جمع ہو جانے پر ڈاکوؤں نے خالی ہاتھ بھاگنے میں ہی عافیت سمجھی۔ ستم رسیدہ جوڑے کو کچھ ہم درد لوگوں نے ہسپتال پہنچا دیا۔
ڈاکٹر نے بے بسی اور لاچاری سے ہسپتال کے بستر پر لیٹے ہوئے جنید کو اور اس کے گھر والوں کو بتایا کہ انہیں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں چھ سے آٹھ ماہ یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔ انہیں مستقل اپنا علاج جاری رکھنا ہوگا ۔ آپ لوگ انہیں کل گھر لے جا سکتے ہیں ۔
ویل چیئر پر جنید کو جب گھر میں لایا گیا تو سب کے حوصلے پست ہو چکے تھے۔ ابھی تو نئ اور خوبصورت زندگی میں قدم رکھا تھا اور اچانک یہ مصیبت ؟ جنید نے سخت پریشان ہوتے ہوئے ہانیہ سے کہا! ہانیہ! اب میری جاب بھی نہیں رہے گی میں فیکٹری نہیں جا سکتا۔ چھوٹا بھائی اسد ابھی پڑھ رہا ہے۔ علاج پر بہت خرچہ ہو چکا ہے۔ امی بھی مجھے بہت تسلی دیتی ہیں مگر میں اپنی پریشانی چھپا نہیں پا رہا ہوں۔ وہ قیاس کر بیٹھا تھا کہ وہ معذور ہو چکا ہے ۔ اس کا وقت اب مجبوری اور بے بسی میں گزرے گا۔ وہ اپنے گھر والوں کی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہے اور دوسروں پر بوجھ بن چکا ہے ۔
واجبی شکل و صورت والی ہانیہ کو اللہ نے سمجھ، فہم اور صبر عطا فرمایا تھا۔ آدھی رات ہو چکی تھی ۔ مصلّے پر بیٹھی ہانیہ، اللہ کے سامنے گڑگڑا رہی تھی۔
حسبنا اللہ ونعم الوکیل
یا ربّی یا ربّی ! کوئی راستہ نکال دے۔ کسی صحیح سمت پر چلا دے۔ سسکیوں اور دعاؤں کا سلسلہ دیر تک جاری رہا ۔ روتی ہوئی آنکھیں اور گڑگڑاتی آواز۔
حوصلے اور ہمتوں کو جمع کرتے ہوئے اگلی صبح ہانیہ نے جنید سے کہا ! پریشانیاں تو انسان کی آزمائش ہوتی ہیں۔ یہ اندھیری رات صبح کی کرن کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی۔ مگر اس کے لیے بڑا حوصلہ چاہیے۔ اپنے پاس موجود وسائل اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا ہوگا ۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں منصوبہ بندی بھی کرنا ہوگی۔ گھر کے اخراجات اور ان کے علاج کے لیے ہمیں ایک بڑی رقم چاہیے ہوگی۔ ہمیں کسی غیبی مدد کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھے نہیں بیٹھے رہنا چاہیے۔ جنید کو ہانیہ کی باتوں سے کافی تقویت ملی۔ ہانیہ نے آواز دی ! امی اور اسد آپ دونوں بھی یہاں آ جائیں میں کچھ کہنا چاہتی ہوں ۔
گھر والے ایک جگہ جمع ہو گئے تو ہانیہ نے بات شروع کی۔ ابھی تک علاج پر کافی خرچہ تو ہو چکا ہے مگر شادی کے موقع پر سلامی میں ملی ہوئی رقم محفوظ ہے ۔ ہم اس رقم سے کوئی بھی کام شروع کر سکتے ہیں۔جنید نے کہا وہ اتنی زیادہ رقم نہیں ہے اتنے کم پیسوں سے کاروبار کیسے ہو سکتا ہے ؟؟ پھر اس نے نحیف آواز میں کہا ! اور دوسرے یہ کہ میں تو مجبور اور معذور ہو چکا ہوں میں کسی کام کا نہیں رہا ۔
ہانیہ نے جنید کی طرف محبت اور حوصلے سے دیکھتے ہوئے بات شروع کی۔ مجھے اور امی کو اچھا کھانا پکانا آتا ہے ہم اسی کام کو کاروبار بنا سکتے ہیں۔ سب نے ہانیہ کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا !! اس نے بات آگے بڑھائی ہمارے پاس جو رقم موجود ہے ہم اس سے کھانا پکانے کا ضروری سامان جیسے پاستہ، چکن، چاول، آٹا، گھی، تیل دالیں اور مصالحے وغیرہ ہول سیل مارکیٹ سے لے کر آ جاتے ہیں جو بھی آرڈر ملے آئے گا میں اور امی کھانا پکائیں گے اور اسد اپنی موٹر سائیکل سے وہ کھانا مطلوبہ جگہ پہنچا کر آئیں گے۔ سب نے پھر ہانیہ کی طرف ایسے دیکھا جیسے امید کی کرن نظر آگئی ہو ہانیہ نے مسکراتے ہوئے بات آگے بڑھائی۔ اس میں سب سے اہم کام جنید آپ کا ہوگا۔ آپ واٹس ایپ گروپ، فیس بک، سوشل میڈیا ،تمام دوست احباب اور محلے کہ لوگ جن کو آپ جانتے ہیں ، آفس اور فیکٹریوں میں ہمارے کھانے کا اشتہار دیں گے۔اس نے اپنے شکستہ دل شوہر کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا! سب سے اہم کام یعنی مارکیٹنگ کی ذمہ داری آپ کو دی جاتی ہے۔
ہانیہ نے اپنی بات ختم کی تو سبھی نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں ڈبڈباتے آنسو دیکھ لیے تھے مگر اسے بہانے کی ہمت کسی کو نہ تھی ۔
اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی اور ماموں جان ایک بڑا سا تھیلا گھسیٹتے ہوئے اندر داخل ہوئے اور سب سے نظریں چراتے ہوئے اسد سے کہا یہ راشن ہے اس تھیلے کو باورچی خانے میں لے جاؤ ۔اسد منتظر تھا کہ امی اور بھائی کی طرف سے کیا حکم ملتا ہے ۔امی کچھ سوچنے لگیں۔
مگر جنید نے کہا ماموں جان آپ کا بہت شکریہ، آپ نے ہمارے بارے میں اس حد تک سوچا اور ہماری مدد کی ۔اس حادثے میں ہمارا بھرپور ساتھ دیا مگر میں اپنے عزائم کو پست نہیں کرنا چاہتا ۔اگر میں نے آج یہ راشن کا تھیلا لے لیا، تو کچھ دیر پہلے ہم نے جو حوصلے جمع کیے ہیں وہ ٹوٹ جائیں گے اور ان بکھرے ،ٹوٹے حوصلوں کے ساتھ امیدِ سحر بھی ختم ہو جائے گی اور پھر ہم اگلے مہینے بھی کسی راشن کی تھیلے کے منتظر ہوں گے۔ ماموں جان کچھ نہیں سمجھے۔ پھر امی نے انہیں کی گئی منصوبہ بندی کے بارے میں بتایا جو ان کی پیاری بہو نے حوصلے ہمت ، سمجھ اور فہم سے منصوبہ بندی کی تھی اس کے بارے میں ماموں جان کو بتایا۔ انہوں نے اس منصوبے کی تعریف کی یہ سب سن کر وہ بہت خوش ہوئے انہوں نے کہا ! سب سے پہلا کھانے کا آرڈر میرا لے لو ۔ دس لوگوں کا کل دوپہر کا کھانا چاہیے، میرے گھر پر مزدور کام کر رہے ہیں یہ ان کے لیے ہے ۔ اسد بیٹا! تم کل یہ کھانا پہنچا دینا۔ اس کے ساتھ ہی کھانے کی ایڈوانس رقم امی کے ہاتھ میں دے دی۔
ماموں اسد اور جنید کی ہمت بڑھاتے ہوئے اپنا راشن کا تھیلا گھسیٹتے ہوئے واپس چلے گئے۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔