حوصلہ افزائی

ماضی کی تلخیوں کو بھولنا ضروری ہوتا ہے

دسمبر کی ایک سرد دوپہر تھی۔ بالائی منزل پر واقع کمرے کی جالی دار کھڑکی کے قریب بیٹھی وہ باہر کے بظاہر سادہ مگر دلکش منظر کو دیکھتے ہوئے کچھ سوچ رہی تھی۔ اُس کی نظریں سامنے موجود سفیدے کے درخت پر جمی تھیں جس کے پتے سخت موسم کی تاب نہ لاتے ہوئے زرد ہو کر جھڑ رہے تھے۔ پرندے بھی محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں وہاں سے ہجرت کر کے جا چکے تھے۔ 

درخت کی تنہائی اور ویرانی کو دیکھ کر یونہی اُس کے ذہن میں اپنا سراپا گردش کرنے لگا۔ اُسے اس درخت میں ناجانے کیوں اپنا عکس دکھائی دینے لگا۔ وہ بھی تو ایسی ہی تھی، تنہا اور ویران۔ جس پر مشکل وقت آیا تھا اور آ کر ٹھہر گیا تھا۔ پرندوں اور پتوں کی طرح اُس کے اپنے بھی اُسے چھوڑ کر جا چکے تھے اور وہ بے بسی کی مورت بنی سب کچھ دیکھتی رہ گئی تھی۔ کرتی بھی تو کیا کرتی۔ بھلا وہ کر بھی کیا سکتی تھی سوائے افسوس کے۔ 

وہ یونہی خالی خالی نظروں سے درخت کو تکتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ کیا پتوں کے جھڑنے سے درخت کو بھی تکلیف ہوئی ہو گی۔ کیا پرندوں کے ہجرت کرنے پر درخت بھی افسردہ ہوا ہو گا؟ کیا اِسے بھی اپنی ویرانی کا ملال ہو گا؟ ذہن میں اِن سوالوں کے اُبھرنے کی دیر تھی کہ فوراً اُسے اپنے وجود کی گہرائیوں سے ایک آواز سنائی دی کہ درخت کی یہ ویرانی اِس کی افسردگی کی ہی تو دلیل ہے۔ اِس کی اذیت کا اندازہ کرنے کے لیے کیا اِس کی یہ اُجاڑ حالت کافی نہیں؟ اِس کی یہ ویرانی اِس کی بے بسی کی عکاس ہی تو ہے۔ 

ابھی وہ یہی سب سوچ رہی تھی کہ اُسے اپنے عقب سے کسی کے قہقہوں کی آواز سنائی دی۔ یکدم پلٹ کر اُس نے دیکھا تو اُس کا اپنا ہی ایک خیال مجسم صورت دھارے فلک شگاف قہقہے لگا رہا تھا۔ اُسے یہ خیال اِس طرح ہنستے ہوئے انتہائی بدصورت معلوم ہوا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ اُس کا تمسخر اُڑا رہا ہو۔ 

اِس طرح ہنسنے کی وجہ دریافت کرنے پر اُس نے بتایا کہ وہ واقعی اُس کی بے بسی پہ ہنس رہا تھا۔ مزید دریافت کرنے پر خیال کا کہنا تھا کہ وہ کس قدر احمق ہے کہ اب تک ایک حادثے کے زیرِ اثر جی رہی ہے۔ اُس کے مطابق، وہ ایک تماشہ بنی اب تک وہیں کی وہیں کھڑی ہے جبکہ وقت اُسے اپنے قدموں تلے روند کر کب کا اُس سے کوسوں دور جا چکا ہے۔ اب اگر اُسے اِس دنیا میں رہنا ہے تو فوراً سے پیشتر زندگی کا سفر پھر سے شروع کر کے وقت کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کی کوشش کرنی ہو گی۔ ورنہ ایک وقت آئے گا کہ اُس کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں بچے گا۔ 

  کیا آپ کو بھی فرسٹریشن ہوتی ہے؟

خیال کی یہ بات سُن کر اُس نے گردن موڑ کر درخت کو دیکھا جو ابھی بھی ویرانی اور بے بسی کی مورت بنا کھڑا تھا۔ خیال نے ایک بار پھر اُسے بے بسی کے طلسم سے نکالتے ہوئے کہا

احمق لڑکی، اُس کا وقت ابھی دور ہے۔ جب صحیح وقت آئے گا تو تم دیکھو گی کہ یہ افسردگی کی مورت بنا اپنی تنہائی پہ ماتم کرتا درخت کس طرح نئی بہار کی بانہوں میں بانہیں ڈالے زندگی کو ایک بار پھر خوش آمدید کہے گا۔ کیونکہ یہ جانتا ہے کہ گزرے وقت کا ماتم کرتے رہنے سے فقط خسارے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ سمجھدار وہی ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتے ہیں۔ نا کہ تمہاری طرح ماضی میں رہتے ہوئے حال و استقبال برباد کر لیتے ہیں۔ اب یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے کہ ماضی کے حادثات سے سبق لیتے ہوئے آنے والے وقت کو سنوارتی ہو یا اُسی غم کو دل سے لگائے بیٹھی رہتی ہو۔

خیال کے یہ الفاظ اگرچہ تلخ تھے مگر حرف حرف حقیقت تھے۔ وہ جو اپنی خود ساختہ بے بسی کے خول میں لپٹی خود کو بد قسمت قرار دے چکی تھی، اِن الفاظ سے پوری طرح ہِل کر رہ گئی۔ غیر محسوس انداز میں ایک آنسو اُس کی آنکھ سے ٹپکا اور رخسار پر ایک لکیر بناتا ہوا نیچے گر کر کارپٹ میں جذب ہو گیا۔ 

تمہارا وقت بہت آگے جا چکا ہے۔ چاہو تو اُس سے قدم ملانے کی کوشش کرو، ورنہ یہی آنسو ہمیشہ کے لیے تمہارا مقدر ہوں گے۔

یہ سُن کر اُس نے جھکا سر اُٹھا کر اُسے دیکھا۔ وہ اب آہستہ آہستہ ہوا میں تحلیل ہوتا جا رہا تھا۔ لیکن اُس کے آخری الفاظ ابھی تک اُسے اپنی سماعتوں میں گونجتے سنائی دے رہے تھے۔ 

  خوشی کا الجبرا

ورنہ یہی آنسو ہمیشہ کے لیے تمہارا مقدر ہوں گے۔

اُس نے سر واپس جھکا کر کارپٹ کے اُس حصے کو دیکھا جہاں چند لمحے پہلے اُس کا آنسو گر کر جذب ہوا تھا۔ وہ جگہ ابھی بھی باقی کارپٹ سے نمایاں ہو کر آنسو کے گرنے کی چغلی کھا رہی تھی۔ پھر سے وہی آواز کانوں میں گونجی 

ورنہ یہی آنسو ہمیشہ کے لیے تمہارا مقدر ہوں گے۔

 اُس نے سر اُٹھا کر خیال کو دیکھنا چاہا مگر وہ کہیں نہیں تھا۔ اُس کی تلاش میں اُس کی نظروں نے پورے کمرے کا طواف کیا مگر وہ ہوتا تو نظر بھی آتا۔ 

گردن موڑ کر اُس نے کھڑکی کی جالی کے پار کھڑے اُس درخت کو دیکھا۔ وہ ابھی تک ویسا ہی تھا۔ خاموش، ویران، اُجاڑ اور افسردہ۔ عقب میں کمرے کے کسی کونے سے ایک بار پھر وہی صدا بلند ہوئی

ورنہ یہی آنسو ہمیشہ کے لیے تمہارا مقدر ہوں گے۔

نہیں، ایسا نہیں ہو گا، بالکل نہیں ہو گا۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔ میں ایک بار پھر وقت کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کی پوری کوشش کروں گی۔ میں ہار نہیں مانوں گی۔ یہ آنسو میرا مقدر نہیں رہیں گے۔ 

ماضی کی تلخیوں کو ذہن سے جھٹک کر وہ ایک عزم کے ساتھ خود کلامی کرتی ہوئی اُٹھی اور پردے کھینچ کر کھڑکی کے سامنے برابر کر دیے۔ سفیدے کا درخت اپنی تمام تر اُداسی اور ویرانی سمیت اُس کی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔  

3.7/5 - (3 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

اس تحریر کی مصنفہ اردو ادب میں ماسٹر کرنے کے بعد ایک نجی تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اپنے لکھنے کا با قاعدہ آغاز سال 2021 سے کیا اوراب تک کئی میگزینز میں ان کی تحاریر شایع ہو چکی ہیں۔