رہنمائی

صرف ضروریات پوری کرنے سے پرورش نہیں ہوتی

کیا تمہارا دماغ خراب ہے؟ اتنے بڑے ہو کر ایسی حرکت کرتے ہوئے شرم نہیں آئی تمہیں؟

دس سالہ ارحم ماں کی ڈانٹ سر جھکائے خاموشی سے سن رہا تھا۔ کچھ کہنے کے لیے لب کھولنے کی کوشش کی تو مزید ڈانٹ کر اُسے چپ کروا دیا گیا۔ دراصل کچھ دیر پہلے گھر کے عقبی لان میں کھیلتے ہوئے ارحم کو ایک زخمی چڑیا نظر آئی تھی۔ ارحم کو اُس پہ بہت ترس آیا۔ اُس نے اُسے پانی پلانے کی کوشش کی لیکن چڑیا زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ساکن ہو چکی تھی۔ ارحم نے چھری کی مدد سے لان میں ایک طرف کھدائی کرنی شروع کی تاکہ مری ہوئی چڑیا کو وہاں دفنا دے۔ کھدائی کرنے کے بعد وہ چھری ہاتھ میں لیے چڑیا کے پاس واپس آیا اور اُس کے پاس بیٹھا ہی تھا کہ اُسی وقت اُس کی ماں اندر سے لان کی طرف آئی۔ مری ہوئی چڑیا اور ارحم کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر اُنہوں نے سمجھا کہ ارحم نے ہی چڑیا کو مارا ہے۔ کچھ دن پہلے بھی اُس نے چڑیا کو پکڑنے کے ضد کی تھی اور پھر مما پاپا دونوں نے مل کر اُسے سمجھایا تھا کہ پرندوں کو قید کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ لیکن اب مری ہوئی چڑیا کو دیکھ کر اُنہوں نے ارحم کی ایک بھی نہ سنی اور اُسے اچھی خاصی ڈانٹ پلا دی۔

ارحم بے چارا کہنا چاہتا تھا کہ وہ تو چڑیا کی مدد کر رہا تھا لیکن اُس کی ایک نہ سنی گئی۔ اُسے پہلے تو بہت غُصہ آیا، لیکن پھر دکھ ہوا کہ اُس کی اپنی ماں اُس کی بات تک سننے کو تیار نہ تھی۔ اسی غم و غصے کو اپنے اندر دبائے وہ چپ چپ سا رہنے لگا۔ کسی نے اُس کی طرف دھیان نہ دیا۔ یہ بے توجہی اُسے بری طرح کھل رہی تھی۔ اب تک اکلوتا ہونے کے باعث اُسے جو توجہ اور محبت ملتی آئی تھی، وہ دو مہینے پہلے اُس کے بھائی ارسل کی پیدائش کے بعد بٹ گئی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ احساسِ کمتری کا شکار ہوتا جا رہا تھا۔ لیکن اُس کے والدین میں سے کسی نے بھی اُس طرف دھیان نہ دیا۔

یہی وجہ تھی کہ اُس کا دھیان اب پڑھائی سے بھی ہٹتا جا رہا تھا۔ کلاس میں اُس کی پوزیشن مسلسل ڈاؤن ہو رہی تھی۔ اسکول انتظامیہ نے اُس کے والدین کو بلا کر اس طرف توجہ دلانے کی کوشش کی تو گھر جا کر اُسے ایک بار پھر بری طرح ڈانٹ دیا گیا۔

چودہ سالہ ارحم ایک دن چار سالہ ارسل کو سائیکل پہ بٹھا کر اُسے سائیکل چلانا سکھا رہا تھا۔ ارسل سائیکل چلاتا اور ارحم پیچھے سے اُس کی سائیکل پکڑ کر آہستہ آہستہ دھکیلتا جاتا۔ کافی دیر تک اس طرح پریکٹس کرنے کے بعد ارسل اپنے آپ سائیکل چلانے کی ضد کرنے لگا۔ مجبوراً ارحم کو اُس کی بات ماننی پڑی اور کچھ قدم تک اُس کی سائیکل کو پکڑ کر چلانے کے بعد چھوڑ دیا تاکہ وہ خود چلا سکے۔ لیکن ارسل توازن برقرار نہ رکھ سکا اور سائیکل سمیت گر گیا۔ جس کے نتیجے میں اُسے گھٹنے اور سر پر کافی گہری چوٹیں آئیں۔ اس سب کا ذمے دار ارحم کو ٹھہرایا گیا اور بری طرح سے ڈانٹا گیا۔ اُسے لاپرواہ قرار دیا گیا۔ وہ جو اب تک ارسل کے ساتھ کھیلنے میں کچھ وقت گزار کر اپنے دل کو بہلا لیا کرتا تھا، اب اُس سے بھی دور دور رہنے لگا۔ اُس کی آنکھیں ہر وقت بجھی بجھی سی رہنے لگیں۔

  خوش رہنا ہے تو یہ سات عادتیں چھوڑ دیں

دو سال بعد سولہ سالہ ارحم اپنے میٹرک کے امتحان میں بری طرح فیل ہو گیا۔ لیکن اب اُس کے اندر اپنے والدین کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ اُسے معلوم تھا کہ اُسے سمجھنے والا کوئی نہیں ہے۔ اُسے ایک بار پھر ڈانٹ دیا جائے گا۔ یہ سوچ کر اُس نے گھر نہ جانے کا فیصلہ کیا اور کہیں دور جانے کے لیے دریا کے کنارے واقع بس اسٹیشن کی طرف بڑھ گیا۔

وہاں جا کر اُس نے مختلف شہروں کی طرف جانے والی بیسیوں بسوں کو دیکھا۔ اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کہاں جائے۔ وہ جانتا تھا کہ گھر نہ جانے کا فیصلہ کر کے وہ ٹھیک نہیں کر رہا لیکن اُس کا دماغ کام نہیں کر رہا تھا۔ وہ بس اپنی اس اذیت بھری زندگی سے فرار چاہتا تھا۔ بنا کچھ سوچے سمجھے وہ ایک بس میں سوار ہو گیا۔ کنڈیکٹر ٹکٹ کاٹنے کے لئے اس کے پاس آیا تو پیسے نکالنے کے لیے اُس نے جیب میں ہاتھ مارا لیکن اُس کی جیبیں خالی تھیں۔ مجبوراً اُسے بس سے نیچے اُترنا پڑا۔

ایک بینچ پہ بیٹھ کر وہ سوچنے لگا کہ اب کیا کرے۔ گزرے ماہ و سال کی تلخ یادیں اُس کے ذہن پر پوری شدت سے حملہ آور ہوئیں۔ کس طرح اُسے چڑیا کی موت کا ذمے دار ٹھہرایا گیا تھا۔ ارسل کے سائیکل سے گرنے پر بھی کس طرح اُسے ڈانٹا گیا تھا۔ اُس کی پڑھائی میں دن بہ دن گرتی حالت پر کس طرح اُسے بار بار ڈانٹا جاتا تھا۔ اس طرح کے اور بھی سینکڑوں واقعات تھے جو آج اُس کے یہاں ہونے کے ذمے دار تھے۔ اُسے اپنا آپ بے فائدہ محسوس ہونے لگا۔ کچھ سوچ کے وہ بینچ سے اٹھا اور دریا کی جانب قدم بڑھا دیے۔ 

صبح سے شام ہو چکی تھی۔ ارحم کے والدین اب تک اُس کے گھر نہ آنے پر بہت پریشان تھے۔ اُنہیں اُس کے رزلٹ کا پتا چل چکا تھا اور یہ بھی اندازہ تھا کہ فیل ہونے کی وجہ سے ہی وہ گھر نہیں آیا۔ رات بھر اس کے والد اُسے اپنے محلے اور آس پاس کے علاقے میں تلاش کرتے رہے لیکن کچھ پتا نہ چلا۔ اگلی صبح وہ پولیس اسٹیشن گئے اور گمشدگی کی رپورٹ درج کروا کے پولیس کی مدد سے اُسے تلاش کرنے لگے۔ 

چار گھنٹوں کی تلاش کے بعد دوپہر کے قریب وہ اُنہیں دریا کے قریب ایک پل کے نیچے سویا ہوا ملا۔ جب اُسے جگایا گیا تو اپنے والد کو دیکھ کر اُس نے بھاگنے کی کوشش کی۔ کسی طرح سمجھا بجھا کر اُسے گھر لایا گیا اور گھر نہ آنے کی وجہ پوچھی گئی تو وہ رونے لگا اور روتے روتے بتایا کہ وہ فیل ہونے کے بعد سب کا سامنا نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے اُس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ گھر نہیں جائے گا۔ یہاں سے کہیں دور چلا جائے گا۔ یہی سوچ کر وہ بس اسٹیشن پر گیا تھا لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ کہیں نہ جا سکا۔ پھر اُس نے دریا میں چھلانگ لگانے کا فیصلہ کیا لیکن جب دریا کے قریب پہنچا تو یہ بھی نہ کر سکا۔

  نوجوانی میں جلد کامیابی کا آغاز کرنے کا راز

اُس نے روتے ہوئے اپنے امی ابو کو کہا کہ آپ کا بیٹا بہت بزدل ہے۔ اُس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ دریا میں کود کر خود کو اس تکلیف دہ زندگی سے آزاد کر سکے۔

اُس کے والدین نے کہا کہ اگر ماں باپ آپ کو ڈانٹتے ہیں، تو وہ بھی آپ کی بھلائی کے لیے ہوتا ہے۔ اُن کی ڈانٹ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آپ ایسا کریں۔ وہ تو اس لیے ڈانٹتے ہیں تاکہ آپ ایک بار کی ہوئی غلطی دوبارہ نہ کریں۔

لیکن مجھے تو بنا غلطی کے بھی ڈانٹا جاتا ہے پاپا۔ آپ کو پتا ہے مما،میں نے چڑیا کو نہیں مارا تھا۔ میں تو اُس کی ہیلپ کر رہا تھا۔ میں پڑھنے کی بھی بہت کوشش کرتا ہوں لیکن مجھے کچھ یاد نہیں رہتا۔ اور آپ جانتے ہیں، ارسل کو بھی سائیکل سے میں نے نہیں گرایا تھا۔ آپ لوگ ہمیشہ مجھے بلا وجہ ڈانٹتے تھے۔ اس لیے اب مجھے آپ لوگوں سے ڈر لگتا ہے۔ ارحم اپنی بات کہہ کر ایک بار پھر گھٹنوں میں سر دیے رونے لگا۔ 

اُس کی بات سن کر اُس کے والدین کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا۔ ارسل کی پیدائش سے لے کر اب تک ارحم کی جانب سے برتی جانے والی لاپروائی پر وہ دونوں بہت نادم ہوئے۔ جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتے اپنے نوعمر بیٹے کو یوں دس سالہ بچے کی طرح روتے دیکھ کے اُن کا دل کٹ کے رہ گیا۔ اُنہوں نے ہاتھ جوڑ کر اپنے بیٹے سے اپنے رویے کی معافی مانگی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ کوئی انہونی نہیں ہوئی اور وقت رہتے اُنہیں اُن کا بیٹا واپس مل گیا۔ 

اب اُنہیں اس بات کی سمجھ آ چکی تھی کہ والدین ہونا کتنی بڑی ذمے داری ہوتی ہے۔ اور اولاد کے درمیان توازن قائم رکھنا کس قدر ضروری ہے۔ صرف روٹی کپڑے کی ضروریات پوری کر دینے کو ہی پرورش کرنا نہیں کہتے۔ ان سب ضروریات کے ساتھ ساتھ بچوں کو برابر پیار اور توجہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

بچے حسّاس ہوتے ہیں۔ والدین کی بے اعتنائی اُنہیں کس ذہنی اذیت میں مبتلا کر سکتی ہے، اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ارحم کے والدین کو تو وقت رہتے اپنی کوتاہی کا احساس ہو گیا لیکن ہمارے ہی معاشرے میں سینکڑوں ایسے بچے ہوتے ہیں جو والدین کی عدم توجہی کے باعث کوئی انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کچھ تو بری صحبت کا شکار ہو کر نشے اور چوری چکاری جیسی بری عادات کا شکار ہو جاتے ہیں اور کچھ اپنی اس ذہنی اذیت سے چھٹکارا پانے کے لیے زندگی کا چراغ ہمیشہ کے لیے گُل کے لیتے ہیں۔

4.7/5 - (3 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

اس تحریر کی مصنفہ اردو ادب میں ماسٹر کرنے کے بعد ایک نجی تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اپنے لکھنے کا با قاعدہ آغاز سال 2021 سے کیا اوراب تک کئی میگزینز میں ان کی تحاریر شایع ہو چکی ہیں۔