ایک مصروف محلے میں شام کا وقت ہے۔ سورج غروب ہونے کو ہے۔ علی، سولہ سالہ لڑکا کھڑکی کے پاس کھڑا باہر دیکھ رہا ہے۔ گلی میں بچے کھیلنے کی بجائے موبائل میں مصروف ہیں، گلی کے کنارے کچرے کا ڈھیر ہے اور ایک بارہ برس کا بچہ ناک پر ہاتھ رکھے وہاں سے گزر رہا ہے۔

علی دل میں سوچتے ہوئے

"کبھی یہ محلہ زندہ دل لوگوں سے بھرا ہوتا تھا۔ پارک میں بچے ہنستے کھیلتے تھے۔۔ اب صرف سناٹا ہے۔۔۔ اور بدبو۔۔۔ ہم نے اپنی زمین کو کیا بنا دیا؟”

اچانک اس کی ماں دروازے پر آتی ہے۔۔۔

"علی بیٹا! کھڑکی بند کر دو۔۔۔ باہر کچرے کی بو بہت آ رہی ہے۔”

علی (آہ بھرتے ہوئے)

"امی! بس یہی تو مسئلہ ہے۔ ہم کھڑکیاں بند کر کے سمجھتے ہیں مسئلہ ختم ہو گیا۔ اصل میں تو ہم خود اس کا حصہ بن چکے ہیں۔”

ماں چونک جاتی ہے۔۔۔! علی کی سنجیدگی کو محسوس کرتی ہے۔ علی اپنے کمرے میں آتا ہے۔ لائٹ آن کرتا ہے اور اپنی ڈائری نکالتا ہے اور لکھتا ہے۔

"سبز انقلاب  نہ صرف میرا خواب بلکہ سب کا فرض۔”

اگلے دن۔۔۔۔ اسکول کی اسمبلی۔ استاد سر مبشر ماحولیات پر لیکچر دے رہے ہیں۔۔۔۔۔

سر مبشر کسی حد تک  شدت سے

"زمین ہم سے کچھ نہیں مانگتی۔ صرف اتنا کہ ہم اسے سانس لینے دیں۔ اگر ہم نے ابھی بھی آنکھیں نہ کھولیں تو۔۔۔ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔”

علی کا چہرہ یکایک سنجیدہ ہو جاتا ہے۔ کچھ لمحے بعد وہ اپنے دوستوں کو اسکول کی کینٹین میں لے جاتا ہے۔

علی کہتا ہے

مجھے تم سب سے ایک بات کرنی ہے۔ بہت اہم بات۔

بلال ۔۔۔چٹخارا لیتے ہوئے

"اُف! علی پھر کوئی فلسفہ لے آیا لگتا ہے۔”

سارہ مسکرا کر کہتی ہے

"اچھا علی، اب بتاؤ کیا سوچ رہے ہو؟”

"ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔ مگر ہم صرف دیکھ رہے ہیں! ہم کچھ کرتے کیوں نہیں؟”

 علی کسی حد تک جذباتی ہو جاتا ہے۔۔۔ کیا تم نے سر مبشر کا لیکچر نہیں سنا

آمنہ ہلکے لہجے میں۔۔۔

"ہم بچے ہیں علی ہم کیا کر سکتے ہیں؟”

علی پُرعزم انداز میں کہتا ہے

"ہم بچے ہیں۔۔۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بے اثر ہیں۔ اصل انقلاب ہمیشہ نوجوان لاتے ہیں۔ اگر ہم چار بھی دل سے کچھ کریں۔۔۔ تو لوگ ہم سے جڑیں گے۔”

  ذہنی مضبوطی کی طرف سفر کا آغاز

تھوڑی خاموشی کے بعد سارہ کہتی ہے!

"ٹھیک ہے! میں تیار ہوں۔ میرے ابو گرافک ڈیزائنر ہیں۔ میں پوسٹرز اور لوگو بنانے میں مدد لوں گی۔”

بلال، ہنستے ہوئے۔۔۔

"اور میں پودے لگاتے لگاتے اگر کیچڑ میں گر گیا تو سوشل میڈیا پر مت ڈال دینا”

آمنہ کی بھی آواز سنائی دیتی ہے۔۔۔

"چلو، ایک ہفتہ ٹرائی کرتے ہیں، پھر دیکھیں گے کیا ہوتا ہے۔”

اگلے دن وہ اسکول کے پرانے باغیچے میں جاتے ہیں ہاتھوں میں کدال، پانی، پودے اور حوصلے کے ساتھ۔۔۔

"یہ جگہ مر چکی تھی۔۔۔ اب ہم اسے دوبارہ زندہ کریں گے۔”

سارہ ایک چھوٹے سے پودے کو لگاتے ہوئے۔۔۔

"یہ ننھا پودا ایک دن سایہ دے گا۔۔۔ شاید ہماری نسلوں کو۔”

بلال ایک گملے پر لکھتا ہے۔۔۔ درخت ہیں تو ہم ہیں

چند دنوں میں اسکول میں تبدیلی آنے لگتی ہے۔ دیگر بچے سوال کرنے لگتے ہیں۔

ایک بچہ

"علی بھائی! ہمیں بھی درخت لگانے ہیں۔ ہمیں بھی شامل کریں”

 کچھ پودوں کے بیج ہمیں بھی دے دیجئے۔

 علی ان سے کہتا ہے بیج  تمہارے دلوں میں ہے بس اسے پانی دینے کی ضرورت ہے۔

"بس دل میں محبت ہو زمین کے لیے۔۔۔۔ باقی کام آسان ہے۔”

پرنسپل ان کی محنت سے متاثر ہو کر انہیں اسکول اسمبلی میں بلاتے ہیں۔۔۔۔۔۔

 وہ کہتے ہیں

"ہمیں ان بچوں پر فخر ہے۔ یہ صرف پودے نہیں لگا رہے۔ یہ شعور پیدا کر رہے ہیں۔ علی! اپنا پیغام دو۔”

"ہم نے فطرت کو زخمی کیا ہے۔ اب وقت ہے اُسے مرہم دینے کا۔ ہم صرف پودے نہیں لگا رہے، ہم اپنے کل کو محفوظ بنا رہے ہیں۔”

 علی نے ایک نظر ناظرین پر ڈالی اور اپنے حوصلے کو بلند کرتے ہوئے کہا

"ہم سب نے زمین کو دیا بہت کم ہے، اور لیا بہت کچھ۔ اب ہمیں واپس لوٹانا ہے۔ ایک پودا، ایک وعدہ  کہ ہم زمین سے وفا کریں گے۔”

تالیاں بجتی ہیں۔۔۔۔۔

 سب نے دیکھا

 بچے محلے میں پوسٹرز لگا رہے ہیں

سارہ پوسٹر اٹھاتے ہوئے۔۔۔

"یہ دیکھو، ‘پلاسٹک چھوڑو، زمین سنوارو’ والا پوسٹر کیسا لگ رہا ہے؟”

آمنہ تعریف کرتے ہوئے کہتی ہے!

"زبردست! ہم اگلے ہفتے ‘پلاسٹک فری ہفتہ’ منائیں گے۔”

 سب لوگ ان سرگرمیوں کا بہت اثر لیتے ہیں اور

لوگوں میں بیداری پیدا ہوتی ہے۔

ایک دکان دار کپڑے کے تھیلے بانٹتا ہے

 اور کہتا ہے

"یہ بچے ہمیں شرمندہ کر گئے۔ اب ہم بھی ساتھ ہیں۔”

  دوسروں کے دل جیتنے کا طریقہ

علی مقامی انتظامیہ کو پارکوں کی صفائی کے لیے ای میل لکھتا ہے۔۔۔  کچھ دن بعد اس کا مثبت جواب آ جاتا  ہے۔

علی بہت خوش ہوتا ہے

"یقین نہیں آ رہا۔۔۔ ہمارے الفاظ نے اثر کیا”

جلد ہی "ماحول کے محافظ” کا پیغام لاہور کے دوسرے اسکولوں میں بھی پہنچنے لگا۔ انہوں نے آن لائن ایک ویڈیو سیریز شروع کی جس میں وہ چھوٹے چھوٹے ماحول دوست اقدامات سکھاتے تھے جیسے

* پرانے کپڑوں کو دوبارہ استعمال میں لانا

* بارش کے پانی کو محفوظ کرنا

* پلاسٹک کا متبادل تلاش کرنا

ان کی ویڈیوز وائرل ہو گئیں، اور ایک دن، علی کو ایک فون کال آئی۔ یہ کال تھی ایک قومی ٹی وی چینل سے! انہوں نے "یوم ماحولیات پر ایک نوجوان ہیرو” کے طور پر علی کو مدعو کیا۔

چند مہینے بعد۔۔۔۔۔ ٹی وی چینل سے کال آتی ہے۔

"ہم یوم ماحولیات پر ایک پروگرام کر رہے ہیں اور آپ جیسے نوجوان ہیرو کی کہانی سب کو سنانا چاہتے ہیں۔”

علی پروگرام میں آتا ہے۔ نیشنل ٹی وی پر

اینکر سوال کرتا ہے۔۔۔

"علی! اتنی چھوٹی عمر میں یہ سب کچھ؟ کیا کہنا چاہو گے؟”

علی ذمہ دار شہری کی طرح کہتا ہے

"میں کوئی ہیرو نہیں۔۔۔ میں صرف ایک بچہ ہوں جسے اپنی زمین سے محبت ہے۔ اور اگر ہم سب چاہیں تو ہم سب ہیرو بن سکتے ہیں۔ آئیے! مل کر سبز انقلاب لائیں۔”

 ٹی وی چینل پر

منظر بدلتا ہے۔۔۔۔ کئی اسکولوں کے بچے درخت لگا رہے ہیں۔۔۔ ہاتھوں میں بینر ہے۔ "سبز انقلاب سب کا حق”

پس منظر میں علی کی آواز گونجتی ہے

"ہم وہ نسل ہیں جو زمین کو بچا سکتی ہے۔ اگر ہم نے قدم نہ اٹھایا، تو زمین صرف ایک کہانی بن جائے گی۔ آیئے۔۔۔ آج سے نہیں  ابھی سے بدلتے ہیں”

یہ صرف چند لوگوں کی نہیں، ہر اس بچے کی ہے جو خواب دیکھنے کی ہمت رکھتا ہے  اور انہیں حقیقت میں بدلنے کا عزم بھی رکھتا ہے۔

Rate this post

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

اس تحریر کی لکھاری بڑوں اور بچوں کے لیے مفید کہانیاں اور مضامین لکھتی ہیں جو کہ مختلف ویب سائٹس پر شایع ہوتی رہتی ہیں۔