حوصلہ افزائی

کیا آپ بھی تتلی کی طرح درد کو پکڑ کر بیٹھے ہیں۔

کوّا کالا ہوتا ہے۔ لیکن سفید ہوتا تو زیادہ پیارا لگتا۔ بھلا کالا رنگ بھی کوئی رنگ ہوتا ہے۔

اگر کوّے کو دیکھ کر آپ کے ذہن میں کچھ اس طرح کی باتیں آتی ہیں اور آپ کوّے کی رنگت پہ ایسے تبصرے کرتے ہوئے نا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں تو آپ محض اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ آپ کے لاکھ چاہنے کے باوجود کوے کا رنگ سفید نہیں ہو سکتا۔ وہ جیسا ہے، آپ کو اُسے ویسے ہی قبول کرنا پڑے گا۔ اگر آپ قبول نہیں بھی کرتے تو اس سے نہ تو کوے کو کوئی فرق پڑے گا، نہ ہی کسی اور کو۔ ایسا کر کے آپ صرف اور صرف اپنا وقت ہی ضائع کریں گے۔ 

بالکل اسی طرح زندگی میں کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو جیسی ہوں، ویسے ہی قبول کرنی پڑتی ہیں۔ کیونکہ اُن کو بدلنے پہ ہمارا اختیار نہیں ہوتا۔ اگر بروقت اُن کو قبول کرنے کے بجائے اُن پہ تبصرے کرتے رہیں اور بلا وجہ کڑھتے رہیں تو خسارے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ جو چیزیں آپ کے اختیار میں نہیں ہیں، اُنہیں ویسے ہی قبول کریں اور آگے بڑھیں۔

 ان چیزوں میں سر فہرست وہ لوگ ہیں، جو زندگی میں ہر قدم پر اپنی باتوں اور رویوں سے آپ کی حوصلہ شکنی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اُن کو باتوں اور رویوں کا اثر لینے کے بجائے اپنی تمام تر توجہ اپنے مقصد اور اپنی محنت پر مرکوز رکھیں۔ اُن لوگوں کی منفی باتوں کا بہترین جواب آپ کی کامیابی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ 

ہر چیز کو اُتنی ہی اہمیت دیں، جتنی وہ اس کے حق دار ہیں ۔ حد سے زیادہ اہمیت دینے سے آپ اپنی قدر و قیمت کم کر دیں گے۔ 

یاد رکھیں، زندگی میں آنے والی مشکلات کا بھی ایک مقصد ہوتا ہے۔ اور وہ مقصد ہے آپ کو بہتر سے بہترین کی طرف لے کر جانا۔ آپ کی قابلیت میں اضافہ کرنا اور آپ کی صلاحیتوں کو نکھارنا۔ اس لیے کبھی بھی زندگی میں آنے والی مشکلات سے گھبرانے کے بجائے اُن کا سامنا کرنے کے بہترین حکمتِ عملی اپناتے ہوئے اُن سے نمٹنے کی کوشش کریں۔ فی الوقت جو مشکل آپ کو پہاڑ جتنی بڑی لگ رہی ہوتی ہے، وقت گزر جانے اور اُس مشکل سے نکل آنے کے بعد وہ آپ کو ایک کنکر جتنی لگنے لگتی ہے۔ 

پتا ہے تتلی بھی تتلی بننے سے پہلے ایک کیڑا ہوتی ہے۔ جیسے ہم "کیٹر پلر” کہتے ہیں۔ جب اس کیٹر پلر کے پنکھ نکلنے لگتے ہیں تو اسے بہت درد ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اس کے لیے۔ اسے لگتا ہے یہ زندگی کا سب سے کٹھن موڑ ہے، کاش یہاں موت ہی آجائے۔ لیکن جب اس کے خوبصورت پنکھ نکل آتے ہیں اور وہ زندگی کی رنگینی کو دیکھتی ہے تب اس کی سمجھ میں آتا ہے کہ وہ درد حقیقت میں اسے ایک نیا اور خوبصورت روپ دینے کیلئے ضروری تھا۔ اگر وہ اُس درد سے نہ گزرتی تو ایک حسین زندگی اُسے کبھی نصیب نہ ہوتی۔ 

بالکل اسی طرح آپ کی زندگی میں آنی والی مشکلات بھی در اصل آپ کو زندگی کے ایک نئے اور بہترین ورژن سے روشناس کروانے کے لیے آتی ہیں۔ 

تتلی کا دور حیات دیکھیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ وہ کس طرح ایک ایک کر کے مشکل سے مشکل مراحل کو طے کرتی ہوئی آگے بڑھتی جاتی ہے۔ ایسے ہی ہم انسان بھی ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے۔ ایک ہی منظر یا ایک سے حالات ہمیشہ نہیں رہتے زندگی میں۔ نشیب و فراز زندگی کا حصہ ہیں۔ سب کی زندگی میں آتے ہیں اور سب اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق اُن سے نبٹتے ہیں اور قدم قدم آگے بڑھتے ہیں۔ 

  احساس کمتری شکست کی ابتداء ہے

ہم انسان پہلے چائلڈش ہوتے ہیں، پھر اِم میچیور ہوتے ہیں، پھر میچور ہوتے ہیں، اور یہ سب ایسے ہی نہیں ہوجاتا۔ ہمارے اس ارتقا کے لئے کچھ برے حادثات رونما ہونے ضروری ہوتے ہیں۔ ہنستے کھیلتے ہوئے کوئی میچور نہیں ہوتا۔ 

آپ بھی شاید میچورٹی کے اسی سفر ہیں جہاں آپ کے دل میں بےحد درد ہو سکتا ہے۔ لیکن اس درد کے بعد جو مضبوط شخصیت اور زندگی کا جو بہترین ورژن آپ کا منتظر ہے آپ کو اس کا اندازہ نہیں۔ 

اگر آپ چائلڈش فیز سے نکل آئے ہیں لیکن میچورٹی تک پہنچ نہیں پا رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ بھی اس تتلی کی طرح درد کو پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ درد ختم ہو گیا۔ وقت مشکل تھا، لیکن گزر گیا۔ اب اسے چھوڑ دیں، وہ تو آیا ہی اسی لئے تھا تا کہ آپ کو پہلے سے بہتر شخصیت بنا سکے۔ درد اپنا کام کر گیا، اب آپ کی باری ہے۔ غور کیجئے کہ اس درد نے آپ کو کیا سکھایا؟ کیا سبق دیا؟ اب اُس سیکھے ہوئے سبق کو عمل میں لائیں اور اپنا بدتر نہیں بہترین شخصیت بن کر دکھائیں اور اپنے نئے روپ کو انجوائے کریں۔ جو پہلے سے زیادہ خوبصورت، مضبوط اور میچور ہے۔ 

  ناکام ہونے کے چار بڑے فائدے

آپ کے آس پاس بہت سے لوگ ہوں گے جو آپ کو آگے بڑھتے دیکھ ٹانگ کھینچنے اور راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کریں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ لوگوں سے بالکل کنارا کشی اختیار کر لیں۔ ملنا جلنا چھوڑ دیں کیونکہ آپ کو لگتا ہے کہ کوئی آپ کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو لوگوں سے بھاگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو لوگوں سے ہر حال میں واسطہ رکھنا پڑے گا۔ اپنے کام کی وجہ سے، اپنے رشتوں کی وجہ سے، وہ رکھیں۔ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے۔ اسے معاشرے میں سروائییو کرنے کے لیے سہاروں کی ضرورت ہر حال میں ہوتی ہے۔ کیونکہ ہم اکیلے نہیں رہ سکتے۔ ضروری نہیں ہے کہ آپ خود پہ زبردستی کرتے ہوئے خود کو دوسرے کے ساتھ خوشگوار تعلقات بنا کے رکھنے پر مجبور کریں۔ بس اتنا کریں کہ اس سے اتنے اخلاق سے پیش آئیں جو انسانیت کا تقاضا ہے۔ نہ کسی کے ساتھ بُرا کریں، نہ کسی کا بُرا چاہیں۔ 

یاد رکھیں کہ کسی بھی مسئلے کا حل فرار نہیں ہوتا۔ مسائل قبول کرکے حل کیے جاتے ہیں۔ آپ بھی قبول کیجئے کہ ہر درد توڑنے نہیں آتا۔ گرانے نہیں آتا۔ کچھ نکھارنے کے لیے بھی آتے ہیں، سنوارنے بھی آتے ہیں اور اٹھانے کے لیے بھی آتے ہیں بشرطیکہ اگر ہم سنورنا چاہیں تو۔ اگر ہم اُس فیز سے نکل کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور اُس کے آنے کے مقصد کو پوری طرح حاصل کر لیتے ہیں تو ہم کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ بہتری کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔ 

یاد رکھیں، زندگی کبھی سکھانا نہیں چھوڑتی۔ پس آپ بھی سیکھنا نہ چھوڑیں اور مسلسل آگے بڑھتے ہوئے اپنے آپ کو بہتر سے بہترین ورژن میں اپ گریڈ کرتے رہیں۔ 

3.7/5 - (3 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

اس تحریر کی مصنفہ اردو ادب میں ماسٹر کرنے کے بعد ایک نجی تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اپنے لکھنے کا با قاعدہ آغاز سال 2021 سے کیا اوراب تک کئی میگزینز میں ان کی تحاریر شایع ہو چکی ہیں۔