ایک امریکی مصنف "اسٹیو سیوبولڈ” کی مفید و دلچسپ کتاب پڑھنے کو ملی ہے۔ ان صاحب نے دنیا کے مختلف بارہ سو امیر لوگوں کے انٹرویو کرنے کے بعد ہمیں یہ بتایا ہے کہ ” امیر کیسے سوچتے ہیں” اور یہی ان کی کتاب کا نام بھی ہے ۔
امیر آدمی کچھ کرنے میں لگ جاتا ہے جب کہ مڈل کلاس بندہ کچھ ملنے کے انتظار ہی میں رہتا ہے ۔
مصنف اسٹیو سیوبولڈ کی تحقیق کے مطابق مڈل کلاسیا لاٹری لگنے والی ذہنیت کا مالک ہوتا ہے کہ ایک دفعہ لگ گئی تو بس وارے نیارے ۔ اسی انتظار میں وہ اپنا وقت برباد کرتا ہے جب کہ امیر بندہ اپنے موجودہ وقت و وسائل کے ساتھ پیسا کمانے کا خود ساماں پیدا کرنے کی کوشش میں جتا رہتا ہے۔
مڈل کلاس بندہ زیادہ پیسے گھبرا کر جب کہ امیر بندہ خوشی خوشی کماتا ہے ۔
اسٹیو سیوبولڈ کے مطابق مڈل کلاس بندہ پہلے سے ہی یہ سوچ کر جذباتی ہوتا رہتا ہے کہ وہ آخر زیادہ پیسوں کا کیا کرے گا ، بچے عیاشی میں اڑا دیں گے، گھر برباد ہو جاے گا، لالچی پن پیدا ہو گا وغیرہ جب کہ امیر سوچ رکھنے والا زیادہ پیسوں کو زندگی میں ترقی کرنے کا زینہ سمجھتا ہے کیونکہ اس کو پتہ ہوتا ہے کہ اپنی فیملی کو بہترین سہولیات دینا ، دوسروں کے کام آنا ، دنیا گھومنا وغیرہ امیری سے ہی ممکن ہوتا ۔
امیر بندہ مخصوص علم کو جبکہ مڈل کلاس زیادہ تعلیم کو ہی امیر بننے کی وجہ سمجھتا ۔
اسٹیو سیوبولڈ کے مطابق کسی بھی کام کی صرف بنیادی باتوں کا کتابی علم رکھنے کے بعد عملی تجربہ سے امیر بننے کی سوچ مڈل کلاس لوگوں میں نہیں ہوتی ۔ وہ صرف اعلی ڈگری لینے کے بعد ہی امیری ملنے پر یقین رکھتے ۔ حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے ۔
امیر آدمی سب سے پہلے اپنا خیال اور مڈل کلاس بندہ پہلے دوسروں کا خیال کرنے پر لگا رہتا ہے ۔
اسٹیو سیوبولڈ کی تحقیق کے مطابق سب سے پہلے اپنے آپ کو خوشحال بنا کر اس کے بعد دوسروں کی پروا کرنا امیر سوچ کی نشانی ہے ۔ بندہ پہلے خود قابل بن جاے اس کے بعد دوسروں کو بھی اوپر لے کر آے ۔ مڈل کلاس لوگوں کی طرح نہیں کہ سب کا خیال رکھتے کرتے جب وہ امیر ہونے کے قریب ہو تو زندگی وفا نہ کرے یا تب امیری کوئی مزہ نہ دے ۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔