کہا جاتا ہے "تربیت وہی کارآمد ہے جو اپنے قول سے نہیں افعال کے ذریعے کی جائے”۔اس لیے ضروری ہے کہ خود والدین میں کچھ اوصاف ہونے چاہیں تا کہ بچے والدین سے سیکھیں اور ان کی ہر بات کو مانیں۔ اس آرٹیکل میں ہم چند اوصاف کا جائزہ لیں گے جو والدین میں پائے جانے چاہیں۔
احساسِ ذمہ داری
تربیت دینےوالے کے لیے سب سے اہم ہے کہ اسے بچوں کی تربیت کرنے جیسی عظیم ذمہ داری کا احساس ہو۔ تربیت کرنے والے کو یہ ادراک ہو کہ اسے بچے کی دینی ، معاشرتی، جسمانی و نفسیاتی اور کرداری تربیت کرنی ہے ۔یہ ادراک اسے بچے کی دیکھ بھال کی طرف متوجہ رکھے گا اور اسے ایک لمحہ کہ لیے بھی بچے سے غافل نہ ہونے دے گا۔جب کبھی وہ غافل ہو گا احساسِ ذمہ داری اسے سکون سے بیٹھنے نہ دے گی۔ اس کے علاوہ یہ احساسِ ذمہ داری ہی ہے جو انسان کو کسی بھی کام کو مکمل توجہ اور لگن سے کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔اسی طرح جب تربیت کرنے والے والدین کو احساس ہو گا تو وہ مکمل توجہ اور پوری لگن و محنت کے ساتھ بنا اکتائے بچوں کی تربیت کریں گے۔
خلوصِ نیت
نیت کسی بھی کام یا امر میں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کسی بھی تربیت کرنے والے کی نیت صرف اللہ کی رضا اور دین کی سربلندی ہو۔صرف اسی سچی اور خالص نیت سے ہی والدین یا تربیت کرنے والے ایسی شخصیات کی تعمیر کر سکتے ہیں جو ناصرف یہ کہ ان کے لیے دنیا میں سہارا بنیں بلکہ ان کی آخرت میں بھی ان کی کی جانے والی تربیت ان کے کا م آئے گی۔
نرم مزاجی/ خوش اخلاقی
تربیت دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مزاجاً نرم خو ہو ۔اس کے ساتھ ہی اس کا خوش اخلاق ہونا بھی ضروری ہے۔ نرم مزاجی و حسن اخلاق ایسی صفات ہیں جو کہ کسی کو بھی متاثر کر سکتے ہیں اور اس کا سب سے زیادہ اثر ہر لمحہ ساتھ رہنے والوں کی طبیعتوں پہ ہوتا ہے۔ اگر والدین خود سخت مزاج یا بد اخلاق کے مالک ہوں تو بچہ ان سے بداخلاقی اور سخت مزاجی کے علاوہ ضد، ہٹ دھرمی اور انا ہی سیکھے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کی تربیت کے دورانیے میں (جو کہ حمل ٹھہرتے ہیں شروع ہو جاتا ہے) والدین دونوں اپنے مزاجوں میں لچک پیدا کریں اور ہر ایک سے اچھے سے پیش آئیں۔ تنک مزاجی، ہٹ دھرمی ، غیبت و حسد اور خاندانی سیاست کو اپنے قول و فعل سے دور کر دیں تا کہ ایک مثبت کردار کی تعمیر ہو سکے۔
تربیت کے دوران غصہ پہ کنٹرول رکھنا بچے کی شخصیت کو مثبت راہ کی طرف ڈالتا ہے۔ جب کہ بات بات پہ غصہ، بچوں کی معصوم شرارتوں پہ مار پیٹ ان کے اندر ایک منفی شخصیت پروان چڑھانے لگتی ہے۔
اچھی زبان کا استعمال
مثبت شخصیت میں اچھے الفاظ و عمدہ لب و لہجہ کا استعمال بہت اہم ہوتا ہے۔اس لیے جونہی آپ والدین کے عہدے پہ فائز ہوتے ہیں لازمی ہے کہ آپ اپنی روزمرہ بات چیت میں اچھی زبان کا استعمال کریں اور اسے عادت بنا لیں۔گھٹیا الفاظ، طنز و تحقیر والا لہجہ ویسے بھی بری بات ہے مگر جب آپ تربیت دینے والے بن جاتے ہیں تو یہ الفاظ و لہجہ بدنما داغ بن جاتے ہیں جن کا اثر آپ کے زیرِ اثر پلنے والے معاشرے کے مستقبل پر ہوتا ہے۔
تقویٰ و پرہیز گاری
تربیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود متقی اور پرہیزگار ہو۔ تا کہ اس کے زیرِ تربیت بچے اسے اپنا ماڈل بنائیں تو متقی اور پرہیزگار بن جائیں۔ متقیٰ و پرہیزگار کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دنیا داری چھوڑ کر صرف دین کا ہو جائے۔ بلکہ دین کے ساتھ دنیا کے رسم و رواجات کو شاملِ حال رکھے۔ متقی و پرہیزگاری کا مطلب ہے کہ اللہ سے ڈرنے والا ہو اور اس کی قائم کردہ حدود میں رہتے ہوئے دنیا کے تقاضوں کو بھی پورا کرے۔
علم وعمل
والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم رکھنے والے ہوں۔ یہاں علم سے مراد دنیاوی تعلیم نہیں بلکہ علم سے مراد اپنے مذہب و اخلاقیات کی بنیادی چیزوں کو جاننے اور اس پر عمل کرنے والے ہوں۔ تا کہ بچوں کو ان چیزوں کے بارے میں سکھا سکیں۔اگر تربیت کرنے والا خود ہی اخلاقیات و مذہبی عبادات کو نہ جانتا ہو تو اس کا یہ جہل اس کے ساتھ بچوں کو بھی جہالت و بے راہ روی کی طرف لے جائے گا۔اس لیے دین کی بنیادی چیزوں کا علم اور ان پہ عمل کرنا کسی بھی والدین کے لیے ضروری ہے۔
دوسری طرف تربیت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جن چیزوں کا علم رکھتا ہے ان پہ عمل بھی کرے تا کہ بچوں تک صرف زبانی علم ہی نہ پہنچے بلکہ ان کے سامنے علم کی مثال عمل کے رنگ میں سامنے آئے ۔اس طرح زندہ مثال سے بچے بہت تیزی سے سیکھتے ہیں۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔