کردار سازی

میں صبر کیسے کروں؟

عام خیال کیا جاتا ہے کہ صبر سے مراد بے بس ہو جانا ہے۔ یا صبر سے مراد عجزو  تذلل کو لیا جاتا ہے۔ مگر جب ہم قرآن پاک کی زبان یعنی عربی میں اس لفظ کے معنی دیکھتے ہیں تو ان آراء کی نفی ہو جاتی ہے۔ عربی میں صبر سے مراد ثابت قدمی، ہمت، قوت کی بنیاد اور عزم و ارادہ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح  جب قرآن پاک میں اس لفظ کے استعمال پہ دھیان دیں تو اس کے مفہوم میں اللہ پہ یقین رکھتے ہوئے اپنے موقف پہ عزم کے ساتھ کھڑے رہنا  آتا ہے۔

اسی طرح صبر کے بارے میں ایک اور رائے ہے کہ اگر مصیبت کے وقت آنسو آ جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ صبر نہیں ہے۔ جب کہ اس رائے کی بھی کوئی حقیقت نہیں۔ کیوں کہ تکلیف یا مصیبت میں آنسو آ جانا ایک فطری عمل ہے۔ اگر تکلیف یا مصیبت میں آنسو آ جائیں تو یہ بات صبر کے منافی ہر گز نہیں جاتی ۔ صبر کے منافی بات تب ہوتی جب انسان مصیبت یا تکلیف میں اللہ سے شکوے کرنا شروع کر دیتا، یا  مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے یا اپنے مقدر کو کوسنے لگتا ہے  یعنی منفی جذبات و خیالات کا شکار ہو جاتا ہے۔

صبر کیسے حاصل کیا جائے؟

صبر یعنی ثابت قدمی  ، قوت و عزم کیسے حاصل کیا جائے؟ اس کا  عمدہ ترین حل  اللہ نے اپنی کتاب میں بیان کر دیا ہے کہ صبر نماز کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ نماز چونکہ مسلمانوں کے اخلاق و کردار کی تکمیل کرتی ہے اور صبر بھی اخلاق و کردار سے ہی متعلق ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "مصیبت میں صبر اور نماز سے مدد لو”۔ یعنی صبر بذات خود بھی نماز سے ملتا ہے۔نماز اصل میں چونکہ اللہ سے انسان کی ڈائریکٹ ملاقات ہوتی ہے اس لیے جونہی وہ نماز پڑھتا ہے اسے یقین آنے لگتا ہے کہ اللہ میرے ساتھ ہے۔ اور اس کی گھبراہٹ یقین  میں اور کم ارادی ثابت قدمی میں بدلنے لگتی ہے۔

  روزمرہ کے معمولات میں تبدیلی کی ضرورت

جس طرح استقامت ایک دم سے حاصل نہیں ہو جاتی اسی طرح صبر بھی ایک دم سے نہیں آ جاتا بلکہ مرحلہ وار آتا ہے۔ پہلے پہل  نماز کی پابندی کرنے سے ایک سکون اور یقین کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے  جس سے صبر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ جتنا زیادہ ہم نماز کی پابندی کرتے ہیں قوتِ ارادی بڑھنے لگتی ہے جو کہ صبر کی طرف لے جاتی ہے  جتنا ہم نماز سے دور ہوتے جاتے ہیں  بے سکونی، ڈیپریشن اور کم ارادی کی زیادتی ہو جاتی ہے اور بے صبری کی راہ آسان ہو جاتی ہے۔

دوسری چیز جس سے صبر آتا ہے وہ دعا ہے ۔ اللہ سے مدد کی دعا کرنے سے انسان میں ہمت و ایقان آتا ہے جو کے انسان کو مشکل ترین حالات میں بھی منفی جذبا ت کا شکار ہونے سے روکتے ہیں ۔ کہ دعا  سے انسان کو ہر وقت اللہ کی مدد اور تعاون کا یقین آتا ہے اور دل مثبت خیالات کی طرف گامزن ہوتا ہے۔

  روزمرہ مسائل حل کرنے کے طریقے

تیسری چیز جو صبر حاصل کرنے میں معاون ہے وہ ہے  اپنی نعمتوں کو گننا ۔ جب انسان کو کسی ایک طرف سے مشکل کا سامنا ہو اور وہ اس ایک طرف کو چھوڑ کر باقی نعمتوں پر شکر ادا کرنا شروع کر دے تو یہ چیز بھی انسان کے دل میں سکون پیدا کرتی ہے اور اسے ڈٹ جانے میں مدد دیتی ہے۔ اسی طرح ایسے لوگوں کے حالات کو دیکھنا جو ہم سے بھی بدتر حالات کا شکار ہیں بھی ہمیں صبر کی راہ پہ چلانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

4/5 - (5 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

اس تحریر کی لکھاری تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہیں ۔ ایک اچھی معلمہ ہونے کے ساتھ سماجی تحقیق کرنے میں بھی دلچسپی رکھتی ہیں۔ اسی حوالے سے مختلف سماجی مسائل پر اسلامی نطریہ کے مطابق رہنمائی کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔