ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جھیل میں بہت ساری مچھلیاں ایک ساتھ رہتی تھیں۔ ایک دن کچھ شکاری اُس جھیل کے کنارے مچھلیاں پکڑنے کے لئے آئے۔ کانٹے پہ چارہ لگا کر اُنہوں نے راڈ جھیل میں پھینکا اور مچھلی کے پھنسنے کا انتظار کرنے لگے۔
جھیل کے اندر ایک ننھی مچھلی نے جب چارے کو دیکھا تو للچائی ہوئی نظروں سے اُسے تکتی ہوئی کھانے کے لیے اُس کی طرف لپکی۔ ابھی وہ کانٹے سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھی کہ ایک بڑی مچھلی اچانک ایک سمت سے اُس کے سامنے آئی اور اُسے کانٹے کی طرف بڑھنے سے روکا۔ ننھی مچھلی نے وجہ دریافت کی تو بڑی مچھلی نے بتایا کہ یہ چارہ محض ایک دھوکا ہے۔ اصل میں اس چارے کے پیچھے ایک کانٹا چھپا ہے۔ جس کی ڈور اوپر بیٹھے ایک انسان کے پاس ہے۔ جونہی تم اس چارے کو کھانے کے لیے اسے منہ میں لو گی، وہ انسان اُس ڈور کو کھینچ لے گا۔ وہ کانٹا تمہارے حلق میں پھنس چکا ہو گا پس جونہی وہ ڈور کھینچے گا، اُس ڈور کے ساتھ تم بھی کھینچی چلی جاؤ گی اور وہ تمہیں پکڑ لے گا۔
اُس کے بعد کیا ہو گا؟ ننھی مچھلی نے خوفزدہ سے انداز میں پوچھا۔
اُس کے بعد وہ تمہیں ایک تیز دھار آلے سے ٹکڑے ٹکڑے کرے گا۔ پھر طرح طرح کے مصالحے لگائے گا اور پھر ایک بڑی سی کڑھائی میں گرم گرم کھولتے ہوئے تیل میں تمہیں تلے گا۔
اُس کے بعد؟ننھی مچھلی کے خوف میں مزید اضافہ ہوا۔
اُس کے بعد یہ دس دس انگلیوں اور بتیس بتیس دانتوں والے انسان تمہیں مزے لے لے کر کھائیں گے۔بڑی مچھلی نے اُسے جواب دیا جسے سن کر ننھی مچھلی نے چارے کی طرف بڑھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ لیکن اب اُسے تجسس ہونے لگا تھا۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ بڑی مچھلی نے جو کچھ کہا، کیا وہ واقعی سچ تھا یا پھر بڑی مچھلی صرف اُسے ڈرانا چاہتی تھی۔
اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اُس نے جھیل کا کونا کونا چھان مارا اور پھر بڑی مچھلی کو بُرا بھلا کہتے اور خود کلامی کرتے ہوئے ایک بار پھر چارے کی طرف بڑھی۔
بڑی بی شاید پاگل ہو گئی ہے۔ میں تو پوری جھیل میں گھوم کے دیکھ لیا۔ نہ تو کہیں کوئی ایسا تیز دھار آلہ ملا جس سے میرے ٹکڑے کیے جا سکیں، نہ ہی گرم گرم تیل کی کڑھائی کہیں دیکھی اور نہ ہی دس دس انگلیوں اور بتیس دانتوں والے انسان ہی کہیں نظر آئے۔ اگر یہ سب چیزیں ہوتی تو کہیں نہ کہیں تو مجھے نظر بھی آتیں۔ توبہ ہے، بڑی بی کتنا جھوٹ بولتی ہے۔ اب میں یہ چارہ کھانے کے بعد اُسے جا کے بتاؤں گی کہ مجھے تو کچھ بھی نہیں ہوا۔ پھر اُس کی شکل دیکھنے لائق ہو گی۔
یہی سب بڑبڑاتے ہوئے ننھی مچھلی نے جونہی منہ کھولا اور چارے کو اپنے منہ میں دبوچا تو ڈور میں وزن محسوس کرتے ہی جھیل کنارے بیٹھے شکاری نے فوراً ڈور کو کھینچا اور کانٹے کے ساتھ ننھی مچھلی بھی شکاری کی گود میں آن گری۔ جس نے مسکراتے ہوئے اُسے اٹھایا اور گھر کی راہ لی۔ اب اُس کا وہی انجام ہونے والا تھا جو بڑی مچھلی نے بتایا تھا لیکن اُس نے اپنی بیوقوفی کے سبب بڑی بی کا یقین نہ کیا اور اپنی جان گنوا دی۔
ہم انسان بھی اس ننھی مچھلی کی طرح اپنی اپنی زندگیوں میں بہت سے ایسے بیوقوفانہ فیصلے لیتے ہیں جن کے نتیجے میں ہمیں اکثر بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ جو کچھ ہمیں نظر آ رہا ہے بس وہی حقیقت ہے، وہی سچ ہے۔ لیکن حقیقت اُس کے برعکس بھی ہو سکتی ہے۔ سچ نظروں سے اوجھل بھی ہو سکتا ہے۔
دور اندیشی کی صلاحیت انسان کا خاصہ ہے۔ انسان کے علاوہ یہ صفت کسی اور مخلوق میں اس درجہ کمال کی حد تک نہیں پائی جاتی۔ پس انسان کو اپنی اس صلاحیت کا بھرپور استعمال بھی کرنا چاہیے اور کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے اُس کے ہر ممکنہ نتائج کا جائزہ ضرور لینا چاہیے۔
جلد بازی سے کام ہرگز نہیں لینا چاہیے۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر چیز اور ہر کام کا ایک مقررہ وقت ہوتا ہے۔ غلط وقت پہ کیا گیا صحیح کام بھی صحیح نتائج نہیں دے سکتا۔ اس لیے ہمیشہ تحمل اور برداشت سے کام لیں۔
اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کہ ہم اپنے خیر خواہوں کو ہی اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔ اُن کی نصیحتیں ہمیں بری لگ رہی ہوتی ہیں کیونکہ وہ ہماری خواہشات کے منافی ہوتی ہیں۔ ہماری آنکھوں پہ مفاد کی ایسی کالی پٹی بندھی ہوتی ہے کہ ہمیں صحیح اور غلط کا فرق تک سُجھائی نہیں دیتا۔ اور پھر جب ہم اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی بربادی کا سامان خرید لیتے ہیں تو پھر پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ کھرے اور کھوٹے کی پہچان کرنا سیکھیں۔ اپنے آس پاس اپنے حلقہء احباب میں لوگوں کو پرکھیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کون کس حد تک آپ کے ساتھ مخلص ہے۔
بعض اوقات ہم بری طرح ٹھوکر کھانے کے بعد بھی سنبھل کے چلنا نہیں سیکھتے۔ ہم اپنی ناکامیوں کا ذمے دار اپنی تقدیر، حالات اور خود سے جُڑے اُن لوگوں کو ٹھہراتے ہیں جو اپنی محنت کے بل بوتے پر ہم سے آگے نکل چکے ہوتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اُنہوں نے ہمارے حصے کی کامیابی ہم سے چھینی ہے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو آج اُن کی جگہ ہم ہوتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ کوئی انسان کسی سے اُس کا نصیب نہیں چھین سکتا۔ آپ کو وہ لوگ اپنی ناکامی کے ذمے دار لگتے ہیں تو ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا نہیں سیکھتے۔ اور جب تک ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا نہیں سیکھ لیتے، تب تک اُن غلطیوں سے ملنے والا سبق بھی نہیں سیکھ سکتے اور نہ ہی سیکھ کر آگے بڑھ پاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں اور اپنے اٹھائے گئے ہر قدم، ہر عمل کے ہر ممکنہ نتیجے کا سامنا کرنے کے لیے ذہنی طور پر خود کو تیار کریں تاکہ آپ حالات کا مقابلہ کر سکیں نہ کہ حالات آپ پہ حاوی ہو جائیں۔
آخری بات، کوئی بھی انسان بذاتِ خود کامل نہیں ہو سکتا۔ ہم سب ناقص ہیں۔ غلطی کا ہونا ہماری سرشت میں شامل ہے۔ غلطی ہو جانا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ تب بنتا ہے جب آپ خود کو عقلِ کل سمجھ لیں۔ آپ بھی انسان ہیں اور آپ سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ خود کو غلطی کرنے کا، انسان ہونے کا مارجن ضرور دیں اور خود کو معاف کرنا سیکھیں۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔