رہنمائی

شادی کے بعد محبتانہ تعلق کیسے اپنایں

شادی ایک ذمہ داری کا نام ہے ۔ جن دو فریقین میں اس کا احساس زیادہ ہو گا وہ اس رشتے کو کامیابی سے چلائیں گے ۔ جو لاپروا قسم کے ذمہ داریوں سے بھاگنے والے انسان ہوں گے وہ بہت جلد اس رشتے سے اکتا جائیں گے ۔ ذمہ داری کو مصیبت کا نام دیں گے ،یہاں تک  ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کو ننھا منھا سمجھنا چھوڑ کر بچپن سے ہی عمر کی مناسبت سے ذمہ داریاں ڈالتے جائیں۔اس کے بعد مرحلہ آتا ہے کہ دونوں  میاں بیوی اپنے اس تعلق کو پائدار،مضبوط  اور محبت بھرا بنانے کے لیے کیا اقدامات کر سکتے ہیں۔ اسی حوالے سے میں کچھ تجاویز دوستوں کے سامنے ضرور پیش کرنا چاہوں گی جو میں نے اپنی شادی شدہ زندگی اور دوسروں کی زندگی سے مشاہدہ کی ہیں۔

میاں بیوی کی لڑائی میں کوئی تیسرا ثالث نہ ہو

دونوں کا زہن الگ ہے، پسند نا پسند الگ ہے تو ذہنی ہم آہنگی ہونے میں وقت لگ سکتا ہے ۔ اختلاف فطری ہے ،یہ ضروری نہیں کہ کوئی بڑی بات ہو چھوٹی چھوٹی باتیں بھی غیر ضروری ضد اور انا کی وجہ سے بڑی لڑائی میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ جب بھی ایسی صورتحال کا سامنا ہو اپنے کمرے میں آرام سے بات کریں ۔اونچی اونچی بولنے کا مطلب یہ ہی ہے کہ آپ اپنے رشتے کو دنیا کے سامنے کھولنا چاہتے ہیں ۔معاملے کی سنگینی کو سمجھیں ہو سکتا ہے کہ آپ دونوں کی بعد میں صلح ہو جائے آپ بھول جائیں لیکن جب آپ نے اس لڑائی میں کسی دوسرے کو شریک کر لیا وہ نہیں بھولے گا ۔ہو سکتا ہے بعد میں کسی موقع پر خود ہی طعنہ دے دے کہ اب بڑے سگے بنے ہو وہ دن یاد ہے جب میں نے صلح کروائی تھی۔تیسرا کردار ہر دفعہ مثبت کردار ادا کرے یہ ضروری نہیں اکثریت کے کیسیز کی علیحدگی میں دیگر گھر والوں کا ذاتی بغض و عناد شامل ہوتا ہے ۔مجھے ایک جاننے والی یاد آ گئی جس نے بتایا کہ ساس اور نند نے منہ پے ہاتھ پھیر کر کہا تھا  کہ تمہاری طلاق نہ کروائی تو ہمارا نام بدل دینا۔

اختلافات بچوں کی غیر موجودگی میں حل کریں

کچھ بھی ہو جائے والدین بچوں کے سامنے معمولی لڑائی جھگڑےسے بھی اجتناب کریں ۔بچے والدین کو دو نہیں ایک سمجھتے ہیں جب ان کے سامنے ان کے دو پیارے جھگڑتے ہیں ،ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے ہیں تو  وہ اندر سے ٹوٹ جاتے ہیں ۔علیحدگی والے ماں باپ کے بچوں کا تو دکھ ہی الگ ہے لیکن بعض وجوہات کی بنا پر اکھٹے رہتے ہوے بھی ماحول کو ٹاکسک بنا کر رکھنا بھی بچوں میں نفسیاتی مسائل پیدا کرتا ہے ۔وہ گھر سے دور بھاگتے ہیں۔باہر محبت تلاش کرتے ہیں اس کے اور بھی ان گنت نقصانات ہیں ۔اس لیے حتیٰ الامکان اس سے بچیں۔ بچوں کی غیر موجودگی میں اپنے اختلافات حل کریں۔

احساسات کا خیال رکھا جائے

میاں بیوی کا رشتہ جتنا نازک ہے اتنا مضبوط بھی ہے۔ اگر طبعی موافقت ہو جائے محبت پیدا ہو جائے تو اس رشتے کا نعم البدل کوئی نہیں ۔انسان مشکل حالات میں بھی سفر کر جاتا ہے کیوں کہ اسے اپنے شریک سفر کے ساتھ سے حوصلہ ملتا ہے۔اگر یہ رشتہ دلی خوشی اور سچی مسرت کا سبب بننے لگے تو دیگر سگے رشتوں سے بھی اہم ہو جاتا ہے۔انسان کی زندگی کا محور بس یہ رشتہ ہی رہ جاتا ہے۔دل و جان کا یہ تعلق مضبوط کرنے کے لیے سب سے اہم بات یہ ہی ہے کہ ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال رکھا جائے ۔ایک دوسرے کے لیے سجا سنورا جائے ۔پسند کے لباس زیب تن کیے جائیں۔شوہر بھی بیوی کی دلداری کے لیے اس کی پسند کا خیال رکھے ۔

  ملازمت کے ساتھ اپنے کاروبار کا آغاز کیسے کریں؟

مجھے زندگی میں جن چیزوں کا شوق نہیں تھا میں نے ان کی اہمیت دیکھ کر وہ اپنے اندر پیدا کی ہیں۔ مثال کے طور پر مجھے کوکنگ کا شوق نہیں تھا لیکن شادی کے فوراً بعد ہی مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اس ذمہ داری میں اس کا بنیادی کردار ہے ۔پھر میں نے بہت جلد اس میں مہارت حاصل کر لی ۔آج سارے خاندان کی بہوؤں میں مہمانوں کے لیے زیادہ ڈشز کی ورائٹی میرے پاس ہے۔جب میرے یا شوہر کے رشتہ دار ہمارے گھر آتے ہیں تو ان کی خدمت میں وہ تو خوش ہوتے ہی ہیں، شوہر کی تعریف سے یہ رشتہ بھی مضبوط ہوتا ہے ۔جب کہ پھوہڑ خاتون خانہ روزمرہ کے کھانے میں ہی شوہر کی ڈانٹ کھاتی رہتی اور دل برداشتہ ہوتی رہتی ہے۔یہ مثال ہر چیز میں آتی ہے اگر میں خود کو نہ بدلتی تو آج زندگی بھی اتنی خوش رنگ نہ ہوتی۔

شوہر کے لیے بیوی کے دل میں جگہ بنانا بہت آسان ہیں ۔لیکن بہت سے مرد اپنی لا پروائی یا انا میں اس سے محروم ہو جاتے ہیں ۔ بیوی کے معمولی سے معمولی کام کی بھی تعریف کرنے  سے بیوی کو بہت خوشی ملتی ہے ۔اس کی ساری تھکاوٹ اتر جاتی ہے۔اگر کوئی کام پسند نہ بھی آئے تو اس وقت خاموش رہیں  اور بعد میں آرام سے سمجھا دیں۔

غلط فہمیاں دل میں نہ رکھیں

بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کچھ حاسد لوگ میاں بیوی کو الگ الگ ،ایک دوسرے کے بارے میں باتیں کر کے دلوں میں غلط فہمیاں ڈال دیتے ہیں۔ تو جب بھی آپ کو کبھی اس صورتحال کا سامنا ہو تو بات دل میں نہیں رکھنی، ایک دوسرے سے ڈسکس کرنا ہے، باتیں دل میں رکھنے سے انسان تکلیف میں رہتا ہے ،اپنے احساسات و جذبات  کا ایک دوسرے سے تبادلہ کریں۔کسی کی بات سن کر فوراً سے ایک دوسرے پر غصہ نہ کریں بلکہ دوسرے کو بات کو واضح کرنے کا موقع دیں۔

شوہر حضرات کے کرنے کے کام

اپنی استطاعت کے مطابق بیوی پر خرچ کریں ۔اچھا کھلائیں اچھا پہنائیں۔بعض حضرات ساری ضروریاتِ زندگی کی چیزیں لا دیتے ہیں لیکن نقد پیسے نہیں دیتے ۔کبھی کبھار بیوی کو جیب خرچ کے نام پر کچھ پیسے بھی پکڑا دیا کریں۔ جو وہ اپنی مرضی سے خرچ کرے۔بیوی کے لیے تحائف خریدیں۔ویسے ساری چیزیں مہیا کرنا تو شوہر کی ہی ذمہ داری ہے اور لوگ کرتے بھی ہیں ۔لیکن تحائف کی شکل میں گفٹ پیک کی خوشی الگ ہوتی یے۔نند اور ساس سے اختلاف ہونے کی صورت میں دونوں فریقین کی الگ الگ بات سن کر سمجھائیں۔گھر میں مسکراتے اور سلام کرتے ہوے داخل ہوں۔آپ باہر سے تھکے آئیں ہیں تو زیادہ احسان جتلانے کی اور رعب جھاڑنے کی ضرورت نہیں ۔بیوی بھی صبح کی گھر کے مختلف کاموں میں مشغول ہے۔ بچوں کے ساتھ کھیلیں۔ہنسی مذاق کریں اچھا کوالٹی ٹائم گزاریں۔بیوی کی موجودگی میں موبائل استعمال نہ کریں۔بیوی کے راز اور باتیں دوسروں کے ساتھ نہ کریں۔کاموں کی تعریف کریں۔چھوٹی موٹی غلطیوں کو نظر انداز کریں۔  ہر چھوٹی بات کو پکڑنے سے انسان منفی بن جاتا ہے اگر کسی کی کوئی بات یا کام پسند نہیں آیا تو اس کی دیگر خوبیوں کو یاد کریں۔

  مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے ان باتو ں پر عمل کریں

بیوی کے کرنے کے کام

شوہر کی عزت و مال کی حفاظت کریں۔ جب وہ کاروبار یا کسی اور وجہ سے پریشان ہوں تو ان کی دل جوئی کریں ،حوصلہ دیں کہ یہ مشکل اللہ پاک جلد حل کر دیں گے اس مصیبت سے نکل جائیں گے۔بچوں کے سامنے شوہر کی کبھی برائی نہ کریں ان کی نظر میں باپ کو ہیرو بنا کر پیش کریں ۔ان کی زمہ داری و محنت کی تعریف کریں۔ساس نند کے رویے کی شکایت میں جہاں ممکن ہو درگزر سے کام لیں اور نظر انداز کریں ۔بعض بیویاں شوہر کے تھکا ہارا گھر آتے ہی بنا پانی کھانا پوچھے گلے شکوے شروع کر دیتی ہیں ،اس سے بچیں۔شوہر کے راز اپنے مائکے میں بھی نہ بتایں۔ ان کی پسند کے کام کریں۔  ان کو بتائیں کہ آپ کی وجہ سے میری زندگی میں بہار ہے۔ تعریف صرف عورت ہی نہیں مرد بھی سننا پسند کرتے ہیں ۔موقع کی مناسبت سے ان کی خوبیوں اور رزق حلال کمانے میں محنت کی تعریف کریں۔اگر معاشی خود مختار ہیں تو اپنے پیسوں سے ان کے لیے تحائف خریدیں ۔ہاؤس وائف ہیں تو جیب خرچ سے پیسے بچا کر موقع کی مناسبت سے تحفہ خریدیں اس سے محبت بڑھتی ہے۔ شوہر کو زیادہ خوشی ہو گی کہ کہ اپنے اوپر خرچ نہیں کیے بلکہ  میرے لیے تحفہ خریدا ہے ۔

5/5 - (5 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

اہلیہ محمد صدیق

اس تحریر کی مصنفہ ہاؤس وائف ہیں اور اپنے امور ِ خانہ داری کے ساتھ اچھا پڑھنے اور لکھنے کا شوق بھی رکھتی ہیں ۔ مختلف تحریری مقابلہ جات میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ انعامات بھی حاصل کرتی رہتی ہیں۔