کردار سازی

اخلاقی اقدار کی اہمیت

انسان کا پہلا تعارف اُس کی ظاہری وضع قطع سے اور دوسرا تعارف اُس کی زبان سے ہوتا ہے۔ ظاہری وضع قطع کا تعارف زیادہ دیرپا نہیں ہوتا۔ جبکہ زبان اور اخلاق کا تعارف ہماری اصل پہچان بنتا ہے۔ کسی کے ظاہر کو دیکھ کر ہم اُس کے بارے میں حتمی رائے قائم نہیں کر سکتے کہ وہ کیسا انسان ہے۔ تاوقتیکہ وہ اپنے تکلم سے اپنی پہچان خود نہ کروا دے۔ انسان کی شخصیت اُس کی زبان کے نیچے پوشیدہ ہوتی ہے۔
ہم اپنے آس پاس ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو ظاہری طور پر تو بہت متاثر کن شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کا پہننا اوڑھنا، اٹھنا بیٹھنا، چلنا بولنا غرض سب کچھ اُنہیں ایک باوقار شخصیت کے طور پہ ظاہر کر رہا ہوتا ہے، لیکن جب وہ زبان کھولتے ہیں تو سننے والوں پر اب تک ان کی ظاہری شخصیت کا جو سحر چھایا ہوتا ہے، وہ یک دم ایک رنگین بلبلے کی طرح پھوٹ جاتا ہے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر لوگوں میں کوئی خاص متاثر کن تاثر قائم کرنے میں ناکام رہتے ہیں، لیکن جب وہ کلام کرتے ہیں تو اُن کا اندازِ گفتگو دوسروں کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے۔
اس طرح ظاہری تعارف زیادہ سے زیادہ چند لمحوں پر محیط ہوتا ہے۔ جبکہ زبانی اور اخلاقی تعارف ہمیشہ کے لیے ہماری مجموعی پہچان اور لوگوں کی ہمارے بارے میں رائے کا حتمی تعین کرتا ہے۔
اس لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم ظاہری و عارضی تعارف سے زیادہ اپنے دائمی تعارف پر توجہ دیں۔ اپنی جسمانی وضع قطع کو پروقار اور متاثر کن بنانے سے زیادہ اس بات پر دھیان دیں کہ ہمارا اندازِ گفتگو کیسا ہے۔ ہم دوسروں سے بات کرتے وقت کیسی زبان اور کن الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ کہیں ہمارے الفاظ کسی کی توہین کر کے اس کی شخصیت کو مسخ کرنے کا سبب تو نہیں بنتے۔ کہیں ہم خود کو بڑا ثابت کرنے کے چکر میں چھوٹے تو نہیں ہو رہے۔ کہیں ہم خود پرستی کے زعم میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو انسانیت کے درجے سے گرانے کا سامان تو نہیں کر رہے۔
الفاظ بہت گہرا اثر رکھتے ہیں۔ ایک مشہور مقولہ ہے کہ الفاظ تلوار سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ یہ مقولہ غلط نہیں ہے۔ الفاظ کے گھاؤ بعض اوقات تلوار سے زیادہ گہرے ثابت ہوتے ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ تلوار کا گھاؤ نظر آتا ہے اور الفاظ کا گھاؤ نظر نہیں آتا۔ کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ہر زخم بھر جاتا ہے۔ لیکن جس طرح سالوں گزرنے کے بعد بھی تلوار کا زخم بھر جانے کے باوجود اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے، ویسے ہی الفاظ کے گھاؤ بھی ہمیشہ کے لیے اپنا نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ اس لیے الفاظ کا انتخاب انتہائی محتاط انداز میں کرنا چاہیے۔ مبادا کہیں غصے میں بولے گئے ہمارے تلخ الفاظ کسی کی روح کو چھلنی کرنے کا سبب نہ بن جائیں۔
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے ساتھ کسی اختلاف کے نتیجے میں ہم تلخ کلامی کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ بنا سوچے سمجھے کچھ بھی کہہ دیتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے الفاظ سامنے والے کی ذات کی تحقیر کر رہے ہیں۔ لیکن کچھ وقت بعد جب غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے اور پھر ہم معذرت کر کے چاہتے ہیں کہ سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے۔ ہم یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ غصے میں بدکلامی ہو گئی، پتا نہیں چلا۔ یہاں ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہی وقت تو اصل میں برداشت سے اور مصلحت سے کام لینے کا ہوتا ہے۔ ہمارا دین تو ہمیں بد اخلاقی کا جواب بھی اخلاق سے دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ پھر ہم اپنی بداخلاقی کا یہ جواز کیسے پیش کر سکتے ہیں کہ غصے میں زبان پر قابو نہیں رہا۔
معذرت کرنے سے آپ کے اپنے دل کا بوجھ اور احساسِ جرم تو کم ہو سکتا ہے، لیکن جس کو آپ نے اپنے الفاظ سے ٹھیس پہنچائی ہے، اُسے آپ کی معذرت سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ یہ معذرت اور ندامت جیسے الفاظ ہم فقط اپنے ذاتی کتھارسس کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ کسی شیشے کے گلاس کو توڑنے کے بعد آپ اس سے معذرت کر کے چاہیں کہ وہ پھر سے پہلے کی طرح جڑ جائے، تو کیا یہ ممکن ہے؟ قطعاً نہیں۔ تو یاد رکھیے کہ انسانی دل شیشے سے زیادہ نازک ہوتا ہے۔ اپنے الفاظ کے نشتر سے اُسے چھلنی کرنے سے پہلے ایک بار نہیں، سو بار سوچنا چاہیے۔
عاجزی، حلم اور بردباری انسانیت کے تقاضے ہیں۔ اشرف المخلوقات ہونے کا مطلب تکبر میں مبتلا ہونا ہرگز نہیں۔ بلکہ عاجزی کے ساتھ عروج کی منزلیں طے کرنا ہے۔ اور اس رفعت و سربلندی پر ہمہ وقت خُداوند متعال کا شکر گزار رہنا ہے۔
ہماری زبان اور ہمارا اندازِ گفتگو ہمارے رویے کا تعین کرتا ہے اور رویہ کردار کی تشکیل کرتا ہے۔ اور یہ کردار ہماری تربیت کی پہچان بنتا ہے۔ وہ کہتے ہیں نا کہ عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں۔
ہمارے اندازِ گفتگو سے، ہمارے رویے سے لوگ اس بات کا اندازہ لگاتے ہیں کہ ہماری تربیت کس طرح کے ہاتھوں میں ہوئی ہے۔
یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ انسان کے کردار اور اخلاق کی تعمیر پیدائش کے بعد سے ہی شروع ہو جاتی ہے اور اس میں سب سے بڑا حصہ گھر کے ماحول اور افرادِ خانہ کے رویوں کا ہوتا ہے۔ اگر گھر میں اونچی آواز میں بات کرنے کا چلن پایا جائے گا تو بچہ بھی وہی سیکھے گا۔ اگر گھر کے بڑے اپنے ملازمین یا گھر کے چھوٹے افراد کو بات بات میں چھوٹی چھوٹی گالیاں دینے کے عادی ہوں گے تو بچہ گالی دینے کو کوئی اخلاقی برائی نہیں سمجھے گا۔ کیونکہ وہ اپنے بڑوں کو یہ کرتے دیکھ رہا ہے۔ وہ اسے ایک عام معاشرتی رویے کے طور پر قبول کرے گا۔ اگر گھر میں عورتوں کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہو تو وہ بچہ بڑا ہو کر کبھی عورتوں کو عزت نہیں دے سکے گا۔ اور بڑا ہونے کے بعد جب وہ معاشرے میں عملی زندگی کی طرف قدم اٹھائے گا تو بچپن سے سیکھا گیا رویہ ہی اُس کی پہچان اور دنیا کے سامنے اُس کا تعارف بنے گا۔
اس لیے بحیثیتِ افراد، والدین اور ذمے دار شہری، ہمیں ہر لحاظ سے اپنے اپنے گھروں میں اخلاقی رویے اور اندازِ گفتگو کی اہمیت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ بچوں کو بچے سمجھ کر ہمیشہ نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ انہوں نے ہمیشہ کے لیے بچے نہیں رہنا ہوتا۔ اُنہوں نے بڑا بھی ہونا ہے اور اسی معاشرے کے اندر رہتے ہوئے عملی زندگی کے تقاضے بھی نبھانے ہیں۔
لڑائی جھگڑے ہر گھر میں ہوتے ہیں۔ ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ ایک جگہ رکھے چار برتن بھی آپس میں کھڑک جاتے ہیں تو پھر جیتے جاگتے انسانوں کا آپس میں ٹکراؤ نہ ہونا کیسے ممکن ہے۔ یہ ایک عمومی بات ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ بچوں کے سامنے ہی گھر کے بڑے ایک دوسرے کی شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے، بچوں کے ناپختہ اذہان میں تعصب کا زہر انڈیل رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ زہر بچوں کی اخلاقیات کو پوری طرح مسخ کر دیتا ہے۔
گھریلو جھگڑے، خاص کر میاں بیوی کو اپنی آپسی رنجشیں بچوں کے علم میں لائے بغیر سلجھانی چاہئیں۔ بچہ اگر والد صاحب کو والدہ کی بے قدری و بے عزتی اور اُن سے بد کلامی کرتے دیکھے گا تو ممکن ہے کہ وہ اپنے والد سے بدظن ہو جائے، یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بھی اپنی والدہ اور بہنوں سے ویسی ہی بدسلوکی کرنے لگے۔ اس لیے بچوں کی اخلاقی تربیت کو ہمیشہ اپنی ترجیحات میں رکھنا چاہیے۔
اگر بچہ باہر سے کوئی غلط الفاظ جیسے گالیاں وغیرہ سیکھ کر آئے تو بچہ سمجھ کر چھوڑنے کے بجائے سرزنش کی جائے۔
صحیح اور غلط کے مابین فرق کی تمیز بچے کو لازمی سمجھائی جائے۔ ہر کام کرنے سے پہلے وہ خود ہی خود سے یہ سوال لازمی کرے کہ آیا یہ صحیح ہے یا غلط۔
اخلاق وہ چیز ہے جو بروزِ قیامت، میزان میں سب سے زیادہ وزن کا حامل ہو گا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آج کل لوگ اس کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے۔ ظاہر کو بڑھ چڑھ کر خوبصورت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لباس، جوتوں، بیگز اور طرح طرح کی چیزوں پر لاکھوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، صرف اس لیے کہ دوسروں کے سامنے ہم کم تر نظر نہ آئیں۔ لیکن جو چیز ہماری اصل پہچان ہوتی ہے، یعنی ہمارا اخلاق، اُس پر ہم دھیان ہی نہیں دیتے۔ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دینے میں یقین رکھتے ہیں۔ کسی نے ایک سنائی تو ہمیں تب تک سکون نہیں ملتا جب تک بدلے میں اُسے چار نہ سنا لیں۔ آخر کیوں ہم اخلاق جیسی اس انتہائی ضروری چیز کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں؟
ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن میزان میں سب سے وزنی چیز اچھا اخلاق ہو گا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی بھی ہمیں اخلاق کا اعلیٰ نمونہ نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ اللہ پاک نے بھی قرآن پاک میں فرما دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اخلاق کے اعلیٰ ترین درجے پہ فائز ہیں۔
پھر کیا سبب ہے کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی اخلاق جیسی اعلیٰ صفت سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ گفتگو کا آغاز سلام سے کرنے میں ہمیں عار محسوس ہوتی ہے کہ اس طرح ہم پینڈو لگیں گے۔ خود کو ہائی پروفائل ظاہر کرنے کے لیے ہم ہیلو ہائے جیسے الفاظ کا استعمال کر کے اپنی اخلاقی اقدار کو خود ہی پامال کر رہے ہیں۔
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اعلیٰ اخلاقی اقدار کا بدلہ ہمیں آخرت میں ملے گا اور ہم ٹھہرے اکیسویں صدی کے مادہ پرست لوگ۔ ہمیں ہر چیز کا بدلہ فوری طور پہ نقد کی صورت میں چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا اور اس کی رنگینیوں میں پوری طرح گم ہوتے جا رہے ہیں اور بطورِ مسلمان اپنی تخلیق کا مقصد فراموش کر رہے ہیں۔
دوستوں کی محافل میں انگریزی گالیاں دینے کا ٹرینڈ آج کل عام ہو چکا ہے۔ اوئے اور تُو جیسے ادب سے عاری الفاظ استعمال کرنا کول "cool” ہونے کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔
دیکھا جائے تو ہم مجموعی طور پر اخلاقی بدحالی کا شکار ہیں۔ ہمیں بحیثیتِ فرد اور بحیثیتِ قوم سنجیدگی سے اخلاقیات کی اہمیت کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ والدین، استاد، بھائی، بہن اور ذمے دار شہری ہونے کی حیثیت سے اپنے بچوں، طالبِ علموں اور بہن بھائیوں کو اخلاق کی اہمیت سے روشناس کرانا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
5/5 - (1 vote)

Avatar

اس تحریر کی مصنفہ اردو ادب میں ماسٹر کرنے کے بعد ایک نجی تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اپنے لکھنے کا با قاعدہ آغاز سال 2021 سے کیا اوراب تک کئی میگزینز میں ان کی تحاریر شایع ہو چکی ہیں۔