کبھی بھی کسی کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہ کریں۔ یعنی لوگوں کو جج نہ کریں۔ آپ اُن کے راستے کی مشکلات کا اندازہ اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک ان کے جوتے پہن کر انہی کے راستے پر سفر نہ کر لیں۔ ہر کوئی اپنے اپنے محاذ پر اپنی اپنی جنگ لڑ رہا ہے۔ یہاں اپنے تجربات کی عینک سے دوسروں کی زندگی کے سہل یا کٹھن ہونے کے بارے میں رائے قائم کرنا حماقت ہے۔
حق اور سچ کے لیے لڑنا، آواز اٹھانا اور ڈٹ جانا سیکھیں۔ انسان کے اندر عاجزی ہونا اچھی بات ہے۔ جہاں جھکنا ضروری ہو وہاں جھک جانا چاہیے۔ لیکن جہاں بات حق اور باطل کی ہو تو وہاں ہرگز نہ جھکیں۔ ہمیشہ حق کا ساتھ دیں۔ ممکن ہے آپ اکیلے رہ جائیں، کیونکہ حق کی راہ کٹھن ہوتی ہے۔ اس پہ چلنا شروع کریں گے تو ہم راہی بہت کم ملیں گے آپ کو۔ لیکن جو ملیں گے وہ سو فیصد کھرے اور مخلص ہوں گے۔
مفاد پرستی کا خناس اپنے دل و دماغ سے نکال دیں۔ جب تک یہ مفاد پرستی کی خصلت آپ کے اندر موجود رہے گی تب تک آپ ہر چیز اور ہے رشتے کو نفع اور نقصان کے ترازو میں تولتے رہیں گے اور زندگی کی حقیقت سے آشنا نہیں ہو پائیں گے۔ زندگی کو کھل کے جینا چاہتے ہیں تو بے غرض ہو جائیں۔ دوسروں کو اگر اپنی ذات سے کچھ دے سکتے ہیں تو نفع دیں، اور اگر یہ نہیں دے سکتے تو نقصان بھی نہ دیں۔
کہتے ہیں کہ انسان جو حاصل کرنا چاہے، اُسے تقسیم کرنا شروع کر دے تو وہ چیز اُس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اپنی زندگی میں اپنے لیے آسانیاں چاہتے ہیں تو دوسروں میں آسانیاں تقسیم کرنے والے بن جائیں۔ آپ کی مشکلات خود بخود سہل ہوتی چلی جائیں گی۔ اس کے برعکس اگر آپ دوسروں کے لیے مشکلات کھڑی کرتے ہیں تو پھر یہ اُمید ہرگز نہ رکھیں کہ زندگی آپ کے لیے آسانیاں لائے گی۔ قانونِ قدرت ہے کہ انسان جو بوتا ہے، وہی کاٹتا ہے۔
کتاب بہترین دوست ہے۔ اس لیے کتب بینی کی عادت ڈالیں۔ تھوڑا سا ہی سہی لیکن روزمرہ کی بنیاد پر مطالعے کی عادت ڈالیں۔ بےکار پڑے پڑے تو لوہے جیسی سخت ترین دھات کو بھی زنگ لگ جاتا ہے۔ آپ کا ذہن تو پھر نازک ترین چیز ہے۔ معیاری کتب کے مطالعے سے اپنے ذہن، سوچ اور خیالات کی آبیاری کرتے رہیں ورنہ پرانے اور بوسیدہ خیالات کا زنگ آپ کی ذہنی استعداد کو دیمک کی طرح چاٹنے لگے گا۔
کبھی بھی معاشرے کو بُرا نہ کہیں۔ کیونکہ معاشرہ بنانے والے بھی آپ خود ہیں۔ معاشرے کی بنیاد آپ ہی سے ہے۔ اگر کوئی برائی نظر آئے تو اُسے معاشرتی برائی کہنے کے بجائے اپنی برائی سمجھیں اور اُس کا سدباب کرنے کی کوشش کریں۔ معاشرہ بذاتِ خود کچھ نہیں ہے۔ افراد اگر خودکو ٹھیک کر لیں تو معاشرہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔
خاک سے بنے انسان کو تکبر زیب نہیں دیتا۔ ہزار کمال موجود ہوں آپ کے اندر، اپنے میدان کے شہسوار ہی کیوں نہ ہوں، اپنی اس عطائے خداوندی کو اپنے لیے تکبر کا جواز نہ بنائیں۔ تکبر صرف اللہ پاک کی ذات کو زیب دیتا ہے۔ کیونکہ صرف وہی ہے جو ہر لحاظ سے کامل و اکمل ہے۔ ہم انسان ناقص ہیں۔ خطا کا ہونا ہماری سرشت میں شامل ہے۔ کسی کام کا ماہر ہونے کے باوجود بھی غلطی کی گنجائش بہر حال موجود رہتی ہے۔ اس لیے خود کو پرفیکٹ سمجھنے کے بجائے عاجزی اختیار کریں۔ جو مزہ قدرت رکھنے کے باوجود معاف کر دینے اور درگزر کرنے میں ہے وہ طاقت کے بل بوتے پر بدلہ لینے میں نہیں ہے۔
وہ نہ کریں جو آسان ہو، بلکہ وہ کریں جو صحیح ہو۔ بھلے ہی اُس میں آپ کی قوت اور وقت زیادہ لگے، لیکن اپنی سہولت کے لیے صحیح اور غلط سے صرفِ نظر نہ کریں۔ ورنہ نتائج خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔
ضروری نہیں ہے کہ جو آپ کو ٹھیک لگ رہا ہے، وہی ٹھیک بھی ہو۔ جانچ اور پرکھ کی عادت ڈالیں۔ حقائق کی بھی تصدیق کریں۔ سنی سنائی باتوں پر کان نہ دھریں اور غیر مصدقہ بات آگے پھیلانے سے گریز کریں۔ ورنہ ہو سکتا ہے کسی کو آپ کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑ جائے۔
اپنے ناقد خود بنیں۔ اپنا احتساب خود کریں تاکہ لوگوں کو آپ پر انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ انسان اپنی ذات اور کردار کا سب سے بہترین جج خود ہوتا ہے۔ دوسروں پر ایک انگلی اٹھانے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیں کہ باقی کی چار انگلیوں کا رُخ آپ ہی کی جانب ہے۔ وہ ایک خامی جو آپ کو کسی اور میں نظر آ رہی ہے، اُس ایک کے بدلے چار خامیاں خود آپ کے اندر بھی موجود ہوں گی۔ پہلے اُن کو ڈھونڈیں، اور دور کرنے کی کوشش کریں۔
اپنے اندر تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔ یہ قبول کریں کہ بہتری کی گنجائش ہر جگہ موجود رہتی ہے۔ اپنے کانوں کو صرف تعریف اور واہ وائی سننے کا عادی مت بنائیں۔ تنقید کو بھی خندہ پیشانی سے قبول کریں۔
بلاشبہ تعریف و توصیف آپ کا حوصلہ بڑھاتی ہے۔ اپنے اعزاز میں تالیاں بجانے کو اٹھے ہاتھ دیکھ کر سیروں خون بڑھ جاتا ہے، لیکن تنقید بھی آپ کے فن اور ہنر کو تراش کر مزید نکھارنے کا کام کرتی ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اچھے بنیں، لیکن آپ اچھے ہیں، یہ ثابت کرنے میں وقت ضائع نہ کریں۔ ہر ایک کو پکڑ پکڑ کے یہ نہ بتاتے پھریں کہ یہ فلاں کام، وہ فلاں نیکی میں نے کی ہے۔ کسی کے ساتھ کوئی نیکی کریں یا کسی پر کوئی احسان کریں تو بس کر کے بھول جائیں۔ بار بار جتا کر اپنی نیکی ضائع نہ کریں۔ ورنہ وہی نیکی کا کام آپ کے گلے کا طوق بن جائے گا۔
کوئی اور کیسا ہے، یا کیا کر رہا ہے، اس سے کوئی غرض نہ رکھیں۔ فقط اتنا کریں کہ خود کو ٹھیک رکھیں۔ معاشرے یا آپ کے ملک نے آپ کو اب تک کیا دیا ہے، یہ سوچنے کے بجائے اس بات کا احتساب کریں کہ آپ نے اپنے معاشرے اور اپنے وطن کو کیا دیا ہے؟ کیا آپ اپنے وطن کے ایک مفید شہری ہیں؟ وطن نے تو آپ کو آزادی جیسی عظیم نعمت سے نوازا ہے لیکن آپ نے اب تک وطن کی دھرتی پہ بوجھ بننے کے سوا کچھ کیا ہے؟ اگر ہاں تو آفرین ہے آپ پر، اور اگر نہیں تو اپنی سوچ بدلیں۔ کیونکہ دنیا "کچھ دے اور کچھ لے” کے اصول پر چلتی ہے۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔