کردار سازی

نوجوانوں میں بڑھتی سماجی تنہائی

ایک وقت تھا جب کسی رشتہ دار کے ہاں جانے اور کسی رشتہ دار کا اپنے ہاں رہنے کی سب سے زیادہ خوشی گھر میں موجود نوجوان نسل کو ہوتی تھی۔ وہ مہمانوں کا پرجوش طریقے سے استقبال بھی کرتے، ان کی مہمان نوازی کی تیاریاں کرتے، مہمانوں کو اپنے گھروں میں اصرار سے روکتے، ان کی مقدور بھر خدمت کرتے، ان کا ہر کام اپنے ہاتھوں سے کرنے میں فخر اور خوشی محسوس کرتے، بزرگ رشتے داروں کے پاس گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتے، ان کے ماضی کے قصے سنتے، ان کی ہدایات و نصیحتوں کو پلے سے باندھ لیتے، ان کی روک ٹوک میں اپنے لیے بہتری تلاش کرتے تھے۔ نتیجتاً بزرگ ان سے خوش ہوتے، انہیں ڈھیروں دعائیں دیتے۔ یہ دعائیں اور نصیحتیں ہی زندگی کے کئی نشیب و فراز میں ان کے لیے بری بلاؤں سے ڈھال بن جاتیں۔

ٹیکنالوجی کی ترقی اور جدت سے ہم نے مادیت کی دنیا میں بہت کچھ پا تو لیا ہے لیکن بدقسمتی سے پرخلوص محبتیں دم توڑ چکی ہیں۔ جو وقت پہلے نوجوان رشتہ داروں کے پاس بیٹھ کر اور ان کی خدمت کرنے میں گزارتے تھے وہ وقت اب موبائل اور لیپ ٹاپ میں سرفکر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کا بےتحاشہ اور غیر ضروری استعمال کر کے وہ سوشل میڈیا کے ایک متحرک ممبر تو بن جاتے ہیں لیکن رشتوں کے معاملے میں بعض اوقات والدین سے بھی بے خبر ہوتے ہیں۔ 

سوشل میڈیا کے ذریعے وہ پوری دنیا کی خبر تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے میں جو حقیقی سکون اور خوشی ہوتی ہے، اس سے بے فیض ہیں۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق ایک دن میں دو گھنٹے سے زیادہ سوشل میڈیا کے استعمال سے ایک فرد میں معاشرے سے الگ تھلگ ہونے کے امکانات دوگنے ہو سکتے ہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق ایک فرد جتنا زیادہ وقت آن لائن صرف کرتا ہے اتنا ہی کم وقت وہ حقیقی رشتوں کے ساتھ صرف کرتا ہے۔

  والدین کیسے اپنے بچوں کو اخلاقیات سکھاتے ہیں

ہمیں ماننا پڑے گا کہ ہم نے اپنے نوجوانوں کو گھروں، اسکولوں، محلوں اور ملک میں وہ ماحول ہی نہیں دیا جو اُنہیں ایک ذمہ دار شہری اور بہتر انسان بننے میں معاون ثابت ہوسکے۔ جب نوجوان، رشتوں سے دور ہوکر سماجی تنہائی کا شکار ہوتے ہیں تو ان میں مختلف امراض جنم لے لیتے ہیں۔ نفسیاتی پریشانی پیدا ہو کر عدم استحکام کا باعث بنتی ہے۔ ذہنی دباؤ کی کیفیت میں نوجوان اپنی صلاحیتوں پر نہیں بلکہ اپنی کم زوریوں پر توجہ دیتا ہے۔ اپنی کوششوں پر نہیں بلکہ اپنی ناکامیوں پر توجہ دیتا ہے۔ اپنے حالات سے نکلنے کےلئے کسی مسیحا کی تلاش کرتا ہے۔ بے یقینی، بے چینی، اور ہیجان کی کیفیت سے دوچار رہتا ہے۔ یہ مدافعتی، قلبی اور ہارمونز نظام پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے۔ 

  محبت مقصد حیات کیوں نہیں ہوتی؟

تنہائی کی وجہ سے پیدا ہونے والے نفسیاتی و جسمانی مسائل کا علاج ادویات میں پوشیدہ نہیں بلکہ ماہرین کی رائے کے مطابق معاشرے کے دوسرے افراد کو کوشش کرنی چاہیے کہ متاثرہ افراد کی لوگوں میں گھلنے ملنے کی صلاحیت میں اضافہ کریں، انہیں مصروف رکھیں، ان سے جذبات بانٹیں، انہیں مختلف سرگرمیوں میں شامل کروائیں، مختلف معاشرتی مسائل پر ان کے ساتھ تبادلہ خیالات کریں، ان سے بات چیت ہمیشہ برقرار رکھیں، انہیں دوسرے لوگوں کی مدد کرنے اور ان سے میعاری تعلقات استوار کرنے کی ترغیب دیں۔ 

5/5 - (2 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔