حوصلہ افزائی

احساس کمتری شکست کی ابتداء ہے

کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ ایک فیلیئر (ناکام ) ہیں۔ کچھ نہیں کر سکتے آپ۔ آپ کے دوست، کزنز، کلاس فیلوز اپنی اپنی زندگی میں آپ سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ کامیاب ہو چکے ہیں۔ بہت کچھ حاصل کر چکے ہیں اور آپ ابھی تک وہیں کے وہیں کھڑے ہیں؟ آپ کو کچھ کرنا نہیں آتا۔ اپ کسی کام کے نہیں ہیں؟ جو بھی کام کرتے ہیں، اُس سے متوقع نتائج حاصل نہیں ہو پاتے اور نتیجتاً آپ تنگ آ کر اُس کام کو کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ کیونکہ آپ کو اندر سے کوئی بار بار یہ احساس دلاتا ہے کہ تم نہیں کر سکتے، کیونکہ تم ایک فیلیئر ہو۔ 

اگر اپنے بارے میں آپ کے یہی خیالات ہیں تو آگاہ ہو جائیں کہ آپ اپنی زندگی اور اپنے کیریئر کے ایک نازک ترین موڑ پر کھڑے ہیں۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں انسان لاشعوری طور پر اپنا اور اپنے ہم عصروں کا تقابل کرنے لگتا ہے اور بار بار کرنے لگتا ہے۔ کسی کے پاس اچھی جاب، گاڑی، گھر یا دوسری سہولیات دیکھ کر یونہی دل میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ بھی تو میرا ہم عمر ہی ہے۔ اُسے یہ سب کچھ میسر ہے تو مجھے کیوں نہیں۔ وہ اپنی زندگی میں کامیاب ہو گیا لیکن میں ابھی تک ناکام ہوں۔ کیا مجھے جینے کا اور خوشحال زندگی گزارنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

یہی سب سوال بار بار سر اٹھاتے ہیں اور بالآخر آپ لاشعوری طور پر ایک طرح کے ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ احساسِ کمتری روز بروز بڑھنے لگتا ہے۔ اور اسی ڈپریشن اور احساسِ کمتری و احساسِ محرومی کے ہاتھوں مغلوب ہو کر اکثر انسان کوئی انتہائی قدم اٹھانے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں۔

لیکن جب آپ خود کا دوسروں کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں تو کیا یہ دیکھتے ہیں کہ اُن لوگوں کے حالات اور آپ کے حالات کے پیچھے جو عناصر کارفرما ہیں، کیا وہ بھی ایک جیسے ہی ہیں؟ اپنی اور دوسروں کی حالت کی بنیادی وجہ کبھی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے آپ نے؟

اپنی بات کو سمجھانے کے لیے میں ایک مثال پیش کرنا چاہوں گی۔ فرض کریں آپ کو اور آپ کے ایک ساتھی کو ایک ایک نقشہ دے کر ایک مخصوص وقت کے اندر ایک عمارت تعمیر کرنے کا ٹاسک دیا جاتا ہے۔ آپ نقشہ لے کر عمارت کی تعمیر کرنے نکل پڑتے ہیں۔ لیکن سائٹ پہ جا کے آپ کو پتا چلتا ہے کہ آپ کو تعمیر کے لیے جو میٹریل دیا گیا ہے وہ ناقص ہے۔ اپ کے پاس مزدوروں کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ اور جس زمین پہ آپ نے عمارت کھڑی کرنی ہے، وہ زمین بھی مطلوبہ عمارت کی تعمیر کے لیے نا موافق ہے۔

  اپنے محرموں کے سوا کسی اور پر بھروسہ نہ کریں

اس کے برعکس آپ کے ساتھی جو مناسب ترین زمین ملتی ہے۔ بہترین تعمیراتی میٹریل اور اچھے سے اچھے مزدور۔ وہ بالکل پر سکون ہو کر اپنی تمام تر توجہ اپنے پراجیکٹ پر مرکوز رکھتے ہوئے اپنے کام کا آغاز کرتا ہے۔ اور مقررہ وقت کے اندر اندر اپنا پراجیکٹ آرام سے مکمل کر لیتا ہے۔

 جبکہ آپ اپنے تمام تر مسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مقررہ وقت کے اندر اندر نقشے کے مطابق عمارت تعمیر کرنے کی۔ لیکن اس دوران آپ کی توجہ ان سب مسائل کی طرف زیادہ اور تعمیر کی طرف کم ہوتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو عمارت تیار ہوتی ہے، وہ توقعات کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔

اب اگر آپ ناکام ہوتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ نے محنت نہیں کی یا آپ ایک فیلیئر ہیں۔ بلکہ وجہ یہ ہے کہ آپ کو وہ ماحول اور وہ حالات میسر نہیں تھے جو آپ کے ساتھی کو میسر تھے۔ اگر آپ کو بھی ویسے ہی مناسب حالات اور سہولیات میسر ہوتیں تو عین ممکن تھا کہ آپ اپنے ساتھی سے بھی بہترین عمارت تعمیر کر کے دکھاتے۔

یاد رکھیں کہ ہر کسی کے حالات، ہر کسی کا محاذ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ جب اسباب اور حالات مختلف ہوں گے تو نتائج ایک جیسے کیسے ہو سکتے ہیں۔

اب اسی بات کو ایک اور مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

فرض کریں، دو لوگوں کے درمیان ایک ریس ہوئی۔ اُن کے نام ہیں مریم اور حارث۔ ریس شروع ہوئی۔

مریم نے ایک گھنٹے میں دس  کلو میٹر فاصلہ طے کیا

حارث نے ڈیڑھ گھنٹے میں یہی فاصلہ طے کیا۔

دونوں میں سے کون تیز رفتار اور صحت مند ہوا ؟

یقینا ہمارا جواب ہوگا ۔۔۔مریم

لیکن اگر ہم کہیں کہ مریم نے یہ فاصلہ ایک تیار ٹریک پر طے کیا جب کہ حارث نے ریتیلے راستے پر چل کر طے کیا تب؟

  ہر تکلیف انسان کو سبق سکھاتی ہے

تب ہمارا جواب ہوگا ۔۔۔حارث

لیکن ہمیں معلوم ہوا کہ مریم کی عمر پچاس  سال ہے جب کہ حارث کی عمر پچیس  سال، تب؟

تب ہم دوبارہ کہیں گے کہ ۔۔۔مریم

مگر ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ حارث کا وزن ایک سو چالیس  کلو ہے جب کہ مریم کا وزن ساٹھ  کلو، تب؟

تب ہم کہیں گے ۔۔۔حارث

جوں جوں ہم مریم اور حارث سے متعلق زیادہ جان لیں گے کہ ان میں سے کون بہتر ہے، اُن کے حالات کیسے تھے، تو ان سے متعلق ہماری رائے اور فیصلہ بھی بدل جائے گا۔

ہم انسان واقعی بہت جلد باز واقع ہوئے ہیں۔ ہم بہت سطحی چیزیں دیکھتے ہوئے اور بہت جلدی میں رائے قائم کرتے ہیں جس سے ہم خود اور دوسروں کے ساتھ انصاف نہیں کر پاتے ہیں۔

اسی طرح خود کا دوسروں کے ساتھ موازنہ یا تقابل کرتے ہوئے بھی ہم میں سے بہت سے لوگ اسی سطحیت کا شکار ہو کر مایوس ہو جاتے ہیں حالانکہ ہر ایک کا ماحول اور حالات مختلف ہوتے ہیں۔ مواقع مختلف ہوتے ہیں، زندگی مختلف ہوتی ہے، وسائل مختلف ہوتے ہیں اور مسائل بھی مختلف ہوتے ہیں۔

آپ اپنے کسی ہم عمر سے کسی کام میں پیچھے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کامیاب اور آپ ناکام ہیں۔ وہ بہتر اور آپ کمتر ہیں۔ ممکن ہے آپ کو میسر مواقع اور درپیش حالات کو دیکھا جائے تو آپ ان سے بہت بہتر ثابت ہوں۔ اس لیے کبھی بھی زندگی کی دوڑ میں خود کو کمتر نہ سمجھیں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ احساس کمتری ہی شکست کی ابتداء ہے۔

5/5 - (4 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

اس تحریر کی مصنفہ اردو ادب میں ماسٹر کرنے کے بعد ایک نجی تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اپنے لکھنے کا با قاعدہ آغاز سال 2021 سے کیا اوراب تک کئی میگزینز میں ان کی تحاریر شایع ہو چکی ہیں۔