رہنمائی

خود سے باتیں کرنا کیا نفسیاتی مسلہ ہے

انسانی ذہن نہایت پیچیدہ اور حیرت انگیز طور پر متحرک ہے۔ روزمرہ کی زندگی میں ہم سب کبھی نہ کبھی خود سے بات کرتے ہیں، چاہے وہ خیالات کی صورت ہو، یا بلند آواز میں خود سے گفتگو۔ اس عمل کو عمومی طور پر معمولی سمجھا جاتا ہے، لیکن بعض اوقات لوگ حیران ہو جاتے ہیں کہ آیا یہ رویہ کسی نفسیاتی مسئلے کی علامت ہے؟ اس مضمون میں ہم خود سے بات کرنے کے عمل کا تجزیہ کریں گے، اس کے نفسیاتی، سائنسی، اور سماجی پہلوؤں کو اجاگر کریں گے، اور جائزہ لیں گے کہ یہ کب ایک عام ذہنی سرگرمی سے بڑھ کر تشویش کا باعث بن سکتی ہے۔

خود سے بات کرنے کا عمل بنیادی طور پر ایک اندرونی مکالمہ ہے، جو ہمارے خیالات کو منظم کرنے، فیصلے لینے، اور جذبات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف انسان کی ذہانت کا مظہر ہے بلکہ تخلیقی صلاحیتوں کا محرک بھی بن سکتا ہے۔ کئی ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ یہ عمل ذہنی نظم پیدا کرتا ہے اور انسان کو بہتر فیصلے کرنے میں معاون بنتا ہے۔ مثال کے طور پر، جب کوئی طالبعلم بلند آواز میں اپنا سبق دہراتا ہے، تو یہ نہ صرف یادداشت کو تقویت دیتا ہے بلکہ ارتکاز میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح، کچھ لوگ جذباتی کیفیت سے گزرنے کے دوران خود سے بات کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے احساسات کو سمجھ سکیں یا ان کا اظہار کر سکیں۔

تحقیقات کے مطابق، خود سے بات کرنا ذہنی صحت کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک مشہور تحقیق کے مطابق، جو افراد باقاعدگی سے خود سے بات کرتے ہیں، وہ زیادہ منظم سوچ رکھتے ہیں اور مشکل حالات میں بہتر انداز میں ردِعمل دیتے ہیں۔ بچوں میں یہ رویہ ترقیاتی مراحل کا حصہ ہوتا ہے، جس سے وہ اپنی دنیا کو سمجھنے اور اپنے تجربات کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح، تخلیقی افراد جیسے ادیب، شاعر، اور سائنسدان بھی اکثر خود سے بات کرتے پائے گئے ہیں، جو اُن کے تخلیقی عمل کو مہمیز دیتی ہے۔

  درس وتدریس کے شعبے کو اپنا لیں

اگرچہ یہ عمل عمومی طور پر فائدہ مند ہے، لیکن کچھ مخصوص حالات میں خود سے بات کرنا ایک نفسیاتی مسئلہ کی علامت بھی ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی شخص خیالی کرداروں سے بات کرے، غیر موجود افراد کو جواب دے، یا بار بار منفی خیالات کا اظہار کرے، تو یہ علامات ذہنی امراض جیسے اسکیزوفرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر، یا شدید اضطراب کی نشاندہی کر سکتی ہیں۔ ان صورتوں میں فرد کی روزمرہ زندگی، تعلقات، اور کام کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔ ایسے افراد کے لیے ماہرِ نفسیات کی مدد حاصل کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔

ثقافتی طور پر بھی اس عمل کے متعلق مختلف رویے پائے جاتے ہیں۔ کچھ معاشروں میں خود سے بات کرنا غیر معمولی یا عجیب سمجھا جاتا ہے، جبکہ بعض ثقافتوں میں یہ روحانی مشق یا تخلیقی عمل کا حصہ مانا جاتا ہے۔ اکثر بزرگ افراد یا تنہا رہنے والے لوگ اس عمل کو اپنے جذبات کے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں، جو ان کی ذہنی صحت کے لیے معاون ہو سکتا ہے۔ لیکن جب یہ عمل دوسروں کے سامنے ہوتا ہے، تو بعض افراد اسے عجیب یا نفسیاتی مسئلہ تصور کرتے ہیں، حالانکہ اس کی جڑیں بہت گہری اور فطری ہوتی ہیں۔

  اضافی مہارتیں سیکھنے کی ضرورت

خود سے بات کرنا کب خطرناک ہو سکتا ہے؟ یہ سوال اکثر ذہن میں آتا ہے۔ اس کا جواب سادہ ہے: جب یہ عمل فرد کی زندگی میں خلل پیدا کرے، یعنی روزمرہ کے کاموں، سماجی تعلقات، یا ذاتی سکون میں مداخلت کرنے لگے۔ اگر کوئی شخص خود سے بات کرتے کرتے الجھن میں مبتلا ہو جائے، یا پریشان کن خیالات بار بار دہرانے لگے، تو یہ علامات کسی ذہنی خلل کی طرف اشارہ ہو سکتی ہیں۔ ایسے میں فرد کو پیشہ ورانہ مدد حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ خود کو بہتر طور پر سنبھال سکے۔

آخر میں، یہ کہنا بجا ہو گا کہ خود سے بات کرنا بذاتِ خود کوئی نفسیاتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک قدرتی اور اکثر فائدہ مند عمل ہے۔ یہ نہ صرف ذہن کو منظم کرنے میں مدد دیتا ہے بلکہ انسان کو اپنے جذبات اور خیالات کی گہرائی تک لے جاتا ہے۔ تاہم اگر یہ عمل حد سے تجاوز کرنے لگے، یا پریشانی کا باعث بنے، تو اس پر توجہ دینا ضروری ہے۔ ذہنی صحت کا خیال رکھنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے، اور وقت پر مدد لینا کامیاب زندگی کی نشانی ہے۔

😊

Rate this post

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔