حوصلہ افزائی

کامیابی حاصل کرنے کا سفر

بعض لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ دنیا کی ساری تنگی، سبھی تکلیفیں، پریشانیاں، مشکلات سب کچھ صرف ہمارے نصیب میں لکھ دیا گیا ہے اور ساری خوشیاں، آسانیاں، سہولتیں اور آسائشیں دوسروں کے نصیب میں ڈال دی گئی ہیں۔ ایسا سوچنے والوں کو لوگوں کے پاس موجود نعمتیں تو نظر آتی ہیں۔ لیکن اُن کے حصول کے لیے کی گئی اُن لوگوں کی محنت اور جدوجہد نظر نہیں آتی۔شاید اسی لیے کہا گیا ہے کہ دنیا صرف تب آپ کے ساتھ ہوتی ہے جب آپ کامیاب ہو جاتے ہیں۔ کامیابی حاصل کرنے کا سفر آپ کو اکیلے طے کرنا پڑتا ہے۔

جب اکیلے سفر کرتے کرتے آپ ایک مقام تک پہنچ جاتے ہیں تو لوگ صرف اُس مقام کو ہی دیکھتے ہیں، آپ کی بلندی تو اُنہیں نظر آ جاتی ہے، لیکن وہاں تک پہنچنے کے لیے آپ نے کیا کچھ سہا، یہ کوئی نہیں دیکھتا، کیونکہ جب آپ اپنے حصے کی مشکلات جھیل رہے ہوتے ہیں تب دنیا کی نظروں میں آپ کچھ بھی نہیں ہوتے۔ آپ کی کامیابی دیکھ کر دنیا آپ سے رشک و حسد میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ آپ کو خوش قسمت، اور مقدر کا سکندر جیسے القاب سے نوازتی ہے۔

آپ کے آس پاس بھی ایسے بہت سے لوگ ہوں گے جو آج ایک لگژری زندگی گزار رہے ہوں گے اور یقیناً جب جب آپ اپنا اور اُن کا موازنہ کرتے ہوں گے تو آپ کو اُن کی قسمت پہ رشک آتا ہو گا۔ آپ کو لگتا ہو گا کہ قدرت نے آپ کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ کہاں یہ لوگ، جو منہ میں سونے کا چمچ لے کے پیدا ہوئے اور کہاں ہم جو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی در در کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ اگر یہی سب سوچ سوچ کر آپ کڑھتے رہتے ہیں اور اپنی قسمت کو کوستے رہتے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ اپنا زاویہء نظر بدل کر دیکھیں۔

یاد رکھیں، کامیابی کا صرف ایک ہی فارمولہ ہے۔ مسلسل محنت اور جدوجہد۔ اگر اس کے علاوہ آپ سمجھتے ہیں کھل جا سم سم جیسا کوئی منتر پڑھنے یا الہ دین کا چراغ رگڑنے سے آپ بیٹھے بٹھائے راتوں رات امیر ہو جائیں گے تو آپ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کامیابی حاصل کرنے کے لیے آپ کو اپنے کمفرٹ زون سے نکلنا ہو گا۔ آج آپ دنیا کے کامیاب ترین لوگوں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کریں تو آپ جانیں گے کہ وہ آج جس مقام پہ ہیں، وہاں کیسے پہنچے۔

امریکی صدر باراک اوبامہ جب امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تو ان سے ٹی وی اسکرین پر پہلی مرتبہ یہ سوال پوچھا گیا کہ "آپ ایک مڈل کلاس سیاہ فام گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور آپ صدر کیسے منتخب ہوگئے”؟

  تنہا رہنا اکثر اچھا بھی ہوتا ہے۔

امریکی صدر کا جواب حیران کر دینے والا اور متاثرکن تھا۔ اُنہوں نے کہا”منزل کو پہچاننے کے بعد اس سیاہ فام لڑکے نے محنت اور جدوجہد سے دوستی کرلی تھی”۔

کامیابی ہر شخص کا خواب ہے، مگر یہ ہر شخص کے حصے میں کیوں نہیں آتی؟ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ صرف چند لوگ ہی اس کی لذت سے ہمکنار ہوتے ہیں؟

مالکم ایس فوربنر کے بقول”صلاحیت کارتوس ہے اور محنت بندوق”،کامیابی کے حصول کیلئے ہمیں جدوجہد اور محنت کی بندوق چاہیے،ورنہ صلاحیت اور طاقت جیب میں پڑے کھوٹے سکوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ کامیاب شخص کے مقاصد اس کا استقبال کرتے ہیں۔ منزل اس کےپاؤں چومتی ہے۔ عزت، شہرت، دولت ،اس کی میراث بنتی ہیں۔ تاریخ اسے اپنے حافظے میں جگہ دیتی ہے۔ چاہنے والے لوگ اس کے آٹوگراف لینے کو بےتاب ہوتے ہیں۔ نسلیں اس سے جیت کا جذبہ حاصل کرتی ہیں۔

ان لوگوں میں اور ہم میں کیا فرق ہوتا ہے؟ یہ بھی ہم جیسے لوگ ہوتے ہیں اور ہماری نسلوں سے ہی ہیں۔

ایک جیسا کھاتے ہیں، ایک جیسا پیتے ہیں، ایک جیسا پہنتے ہیں۔ پھر آخر کامیابی اُن ہی کا مقدر کیوں بنتی ہے؟

یہ کامیاب لوگ ایک طالبعلم، بزنس مین، والدین، ادارے کے سربراہان، ہو سکتے ہیں، ان کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ مسلسل محنت اور جدوجہد ہوتی ہے۔

میکڈونلڈز (مشہور فاسٹ فوڈ چین) کے بانی نے زندگی میں کئی مرتبہ ناکامیوں کا سامنے کرنے کے بعد جب اپنا تمام سرمایہ اپنے برگر کے کاروبار پر لگایا تو وہ اس پر ڈٹ گئے، ان کے اس عزم کا نتیجہ آج دیکھیں کہ دنیا کے ہر کونے میکڈونلڈ کی شاخ واقع ہے۔جب آپ ایک مرتبہ کسی بات کا ارادہ کر لیں تو اس پر ڈٹ جائیں، مسلسل جدوجہد کریں، کامیابی آپ کےقدم چومے گی۔

دنیا کے کسی بھی کونے، کسی بھی ادارے میں، کسی بھی کام میں جب تک محنت اور جدوجہد شامل نہیں ہوگی تو کامیابی کا تصور بھی محال ہے۔

ہم میں سے بہت سے لوگ نتائج اور حصول کو کامیابی سے تعبیر کرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ کامیابی اس شے کا حتمی حصول ہے، جس کی خواہش کی جائے۔ یہ کامیابی کا ادھورا نظریہ ہے۔ جس کا تعلق کامیابی سے زیادہ لالچ سے ہوتا ہے۔

ہمارا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کامیابی کے حصول پر تو یقین رکھتے ہیں، مگر اس کٹھن راستے پر چلنے کو تیار بالکل نہیں ہوتے۔ دوسرے الفاظ میں  کہیں تو یوں ہو گا کہ ہم جنت میں بھی جانا چاہتے ہیں اور مرنا بھی پسند نہیں کرتے۔

   کوئی نہ کوئی خواہش ادھوری رہتی ہے

محنت اور جدوجہد کو ہی کامیابی سمجھنے والے نہ صرف منزل تک پہنچتے ہیں بلکہ ہار جانے کی صورت میں بھی اس سفر کوجاری رکھتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں منزل کسی اور شکل میں ان کی منتظر ہے۔اور ان کا کام تو چلتے رہنا ہے، نتائج اور انجام کی پرواہ کیے بغیر۔ ایسے لوگ ہی کامیابی اور ترقی کی منازل زینہ با زینہ طے کرتے جاتے ہیں۔

اس کے برعکس جن کی نظر کامیابی کی بڑی منزل کے بجائے چند پیسوں نے حصول یا کسی معمولی نوکری کے حصول (جس سے دو وقت کی روٹی چلتی رہے) جیسی سطحی اور معمولی چیزوں پر ہوتی ہے، جو ان چیزوں کے حصول کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں، پھر چاہے اُس کے حصول کے لیے اُنہیں جو بھی طریقہ اپنانا پڑے، وہ اگر اپنی مطلوبہ نوکری یا کوئی دوسری چیز حاصل کر بھی لیں تو اُس کے بعد وہ محنت اور جدوجہد کرنا ترک کر دیتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے نقصانات اور راستے میں آنے والی چھوٹی چھوٹی مشکلات سے دل برداشتہ ہو کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کامیابی کے دروازے اُن پر بند ہو جاتے ہیں۔

اس لیے حقیقی معنوں میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی سوچ، اپنے نظریات اور اپنے مقاصد کو سطحیت کا پابند نہ کریں۔ اپنی زندگی کا ایک مقصد بنا لیں اور اُس مقصد کے حصول کے لیے جی جان سے محنت کریں۔ مشکلات، تکلیفوں، پریشانیوں کی پروا میں کریں۔ ان سب کو آپ محض کامیابی کے راستے کے سنگِ میل سمجھیں اور ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا معرکہ سر کرتے جائیں۔ اس طرح بلآخر آپ اپنی منزل پر پہنچ جائیں گے۔

5/5 - (1 vote)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

Avatar

اس تحریر کی مصنفہ اردو ادب میں ماسٹر کرنے کے بعد ایک نجی تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ اپنے لکھنے کا با قاعدہ آغاز سال 2021 سے کیا اوراب تک کئی میگزینز میں ان کی تحاریر شایع ہو چکی ہیں۔