خزاں کے موسم میں سبھی درخت اور پودے اپنی ہریالی اور خوبصورتی کھو دیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ ہمارے ماحول کا حصہ ہی رہتے ہیں۔ گھر میں لگے درخت جب خزاں رسیدہ ہو جائیں تو اُنہیں صحن سے کاٹ کر پھینک نہیں دیا جاتا۔ یا پھر بے کار سمجھ کر آگ نہیں لگا دی جاتی۔ بلکہ بہار کا انتظار کیا جاتا ہے۔ صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ۔ بہار کی اُمید کا دیا جلائے رکھنا ہوتا ہے۔ یہ یقین رکھنا ہوتا ہے کہ خزاں کا یہ دور ہمیشہ کے لیے نہیں آیا ہے۔ یہ وقت گزر جائے گا اور عنقریب آنے والا وقت بہار کی نوید لے کر آئے گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔
امیدیں بر آتی ہیں اور خزاں کا دور گزر جانے کے بعد جب بہار آتی ہے تو خوشیوں کا پیغام ساتھ لاتی ہے۔ سوکھے پیڑوں کو فطرت نیا لباس عطا کرتی ہے اور وہی خزاں رسیدہ شجر پھر سے زندگی کے رنگینیوں سے بھرپور منظر کا حصہ بن جاتے ہیں اور اپنے وجود سے تمام مخلوقات کو کئی فائدے بہم پہنچاتے ہیں۔ اگر خزاں کے آنے پہ انسان اُن درختوں کو ناکارہ سمجھ کر کاٹنا شروع کر دے تو یہ عمل فطرت کے خلاف ایک بغاوت ثابت ہو گا جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ خزاں کا موسم گزر جانے کے بعد جب بہار کا موسم کا موسم آئے گا تو وہ اپنی تمام تر رعنائیوں اور حُسن سے خالی ہو گا اور تب انسان کے پاس فقط پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہ بچے گا۔ وہ بس افسوس کرتے ہوئے ہاتھ ملتا رہ جائے گا۔
دن بھر پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتے ہوئے اور اپنے نور سے پوری دنیا کو منور کرنے کے بعد شام کو جب سورج غروب ہوتا ہے تو ہر طرف تاریکی کے سائے آہستہ آہستہ پھیلنے لگتے ہیں۔ دن بھر آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی روشنیوں سے مزین آسمان سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے اور سارے میں ایک مہیب سا سناٹا پھیل جاتا ہے۔ ہر چہل پہل، ساری کی ساری رونقیں اور سبھی رنگینیاں سب کچھ ساکن ہو جاتا ہے۔ ایسے میں سناٹے اور اندھیروں سے گھبرا کر واویلا نہیں مچایا جاتا۔ نہ ہی یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔ زندگی مفلوج ہو گئی ہے۔ نہ ہی کوئی انتہائی قدم اٹھایا جاتا ہے۔ بلکہ یہ یقین رکھا جاتا ہے کہ یہ اندھیرے سدا نہیں رہیں گے۔ رات ڈھل جائے گی اور جلد ہی روشنی بھرا ایک نیا دن طلوع ہو گا۔ آج کی شام ڈوبنے والا سورج کل پھر نئی روشنی اور نئی اُمید لے کر آئے گا۔
اگر انسان رات کے اندھیروں سے گھبرا کر بالکل مایوس ہو جائے اور اس مایوسی میں کوئی انتہائی قدم اٹھا لے۔ بالفرض اپنی زندگی کا چراغ ہی گُل کر دے تو کیا ہو گا؟ نہ تو اس دن رات کو کوئی فرق پڑے گا اور نہ ہی قدرت کے اس نظام کو۔ یہ دن رات یونہی آتے جاتے رہیں گے۔ سورج اُسی طرح طلوع و غروب ہوتا رہے گا۔ آسمان اُسی طرح سیاہ و سفید غلاف بدلتا رہے گا۔ اس زمین بلکہ پوری کائنات کا نظام پہلے ہی کی طرح پوری شد و مد سے چلتا رہے گا۔ اگر کچھ نقصان ہو گا تو صرف اُس شخص کا جو مایوسی اور اپنے لاابالی پن کی وجہ سے اپنا سب کچھ گنوا دے گا۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ جس طرح ہر خزاں کے بعد بہار کا آنا لازم ہے اور ہر شب کے بعد سویرا ضرور ہوتا ہے۔ اُسی طرح مشکل کے بعد آسانی بھی ضرور آتی ہے۔ ہر غم، ہر تکلیف اور ہر پریشانی کے بعد خوشی، اور آسائش کا آنا بھی لازم ہے۔ کیونکہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ کبھی دھوپ تو کبھی چھاؤں، یہ سب ہمیشہ سے اسی طرح چلتا آ رہا ہے اور ہمیشہ اسی طرح چلتا رہے گا۔
نشیب و فراز زندگی کا حصہ ہیں۔ پس زندگی میں آنے والی کسی بھی تبدیلی سے دلبرداشتہ ہو کر اپنا نقصان کرنے کے بجائے اس تبدیلی کو خوشدلی سے قبول کر کے آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ وقت کے ساتھ زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کا خیر مقدم نہیں کرتے تو وقت یا دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کچھ فرق پڑے گا تو صرف آپ کی زندگی پر پڑے گا۔ کوئی نقصان ہو گا تو صرف آپ کا ہو گا۔
حقیقت سے بھاگیں گے تو حقیقت بدل نہیں جائے گی۔ اس لیے خود کو مضبوط کریں اور حالات کو قبول کر کے آگے بڑھیں۔ اور یقین رکھیں کہ ہر انتہا کے بعد ایک ابتداء ہر حال میں ہو کر رہتی ہے۔ زوال کا مطلب اختتام نہیں ہوتا۔ ایک زوال نئے عروج کی طرف سفر شروع کرنے کا عندیہ ہوتا ہے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ مواقع تلاش کرتے ہیں یا پھر خود کو حالات کے بہاؤ میں بہنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ انتخاب آپ کا اپنا ہوتا ہے۔
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔