کردار سازی

محبت مقصد حیات کیوں نہیں ہوتی؟

میں آج کل ایک کالج میں لیکچرار تھی۔  کمر میں شدید درد تھا ، تو آرام کی غرض سے چند چھٹیاں لے رکھیں تھیں- بچوں کو سکول بھیج کر کچن سمیٹنے کی بجائے کمرے میں آ کر لیٹ گئی تھی- ایک عجیب سی بے قراری تھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ پریشانی بھی کوئی نہیں پھر دل کیوں بے چین ہے- میں اٹھ کر بیٹھ گئی تھی نیچے قدم رکھتے ہی ماربل پھتر کی ٹھنڈک میرے پاؤں میں سرایت کر گئی -میں نے تکیہ اٹھا کر گود میں رکھا اور ٹی وی آن کر دیا بریکنگ نیوز چل رہی تھی  کہ دسویں جماعت کی طالبہ نے محبت میں ناکامی پر خود کشی کر لی۔

تبھی میرا دل گھبرانے لگا  اور میں لمبے لمبے سانس لے کر خود کو نارمل کرنے لگی- ماضی کی تلخ یادوں سے خون رسنے لگا تھا ۔کچھ کھونے کا احساس آج بھی باقی تھا- کسی دور میں اس لڑکی کی  طرح غلطی میں بھی کرنے لگی تھی- آنسوؤں کی لڑیاں رخساروں کو تر کر کے دامن بھگو چکی تھیں- جس کانچ کے سپنے نے میری آنکھیں برسوں پہلے زخمی کی تھیں اس سے خون آج پھر رس رہا تھا۔ میں تلخ سوچوں کے گھڑے مردے اکھاڑنا نہیں چاہتی تھی ،لیکن میرا دل مجھے مسلسل ماضی میں دھکیل رہا تھا سارے دھندلے منظر صاف ہونے لگے تھے۔

لیکچر کے بعد کلاس میں ہلکی پھلکی گپ شپ جاری تھی-میم! خواب اور خواہش میں کیا فرق ہے؟ کلاس کی سب سے ذہین بچی زیبانے  یہ سوال پوچھا تھا میم نورین کو اس بچی سے خصوصی وابستگی تھی زہانت اس کی آنکھوں سے ٹپکتی تھی- میم نے لیکچر آف کی گھنٹی کو اگنور کرتے ہوے جواب دینا شروع کیا۔

وہ چیز یا مقام جو انسان کے پاس نہ ہو اسے پانے کی تمنا کو خواہش کہتے ہیں اور خواب وہ ہیں جو ہم اپنی خواہشوں کو پورا ہونے سے پہلے ہی خیالی طور پر ان کو پورا ہوتے ہوے دیکھتے ہیں اور خوشی حاصل کرتے ہیں -یہ کھلی  اور بند دونوں آنکھوں سے دیکھے جاتے ہیں- کھلی آنکھوں والے پہ  خود سے اختیار ہوتا جو مرضی تصور کرو اور نیند کی آغوش میں شعور کا تخیل ہوتا  اور کافی حصہ وہ ہی ہوتا جو ہم دن بھر کرتے ہیں۔

ساری کلاس دلچسپی سے سن رہی تھی  اسی لیے میم نورین نے اپنی بات جاری رکھی۔

خواب حوصلہ دیتے ہیں امید لگاتے ہیں تحریک پیدا کرتے ہیں- لیکن اگر ہم خواب ہی دیکھتے جائیں اور عملی اقدامات نہ کریں تو وہ محض خواب ہی رہ جاتے ہیں حقیقت نہیں بنتے- جیسے اگر کوئی بچہ فرسٹ آنے کا خواب دیکھتا ہے لیکن محنت نہیں کرتا تو اس کا خواب کبھی بھی پورا نہیں ہو گا- خواب اور محنت لازم و ملزوم ہیں۔

زیبا آپ کا خواب کیا ہے؟میم نے پوچھا- میرا خواب ٹیچر بن کر ہزاروں بچوں کے دلوں کو علم کی روشنی سے منور کرنا ہے۔ زیبا نے جواب دیا۔ ماشاءاللہ آپ کی تو بہت اچھی سوچ ہے اللہ پاک کامیابی عطا کریں آمین- میم نے اس کی سوچ کو سراہا تھا-  تبھی زیبا نے پھر پوچھا کہ ، میم ایک خواب مجھے اکثر تنگ کرتا میں خود کو لکھتے ہوے دیکھتی ہوں لیکن جو لکھتی ہوں وہ لفظ خود ہی مٹتے جاتے ہیں۔ اللہ پاک خیر کریں گے ۔ آیت الکرسی پڑھ کے سویا کرو شیطان بھی وسوسے ڈالتا رہتا ہے- میم نے گھڑی دیکھی اور اللہ حافظ کہتے ہوے کلاس سے نکل گئیں  کہ اگلا لیکچر شروع ہوے دس منٹ ہو چکے تھے۔

بارش والے دن بھی چھٹی نہ کرنے والی زیبا ایک ہفتے سے غائب تھی ۔ساری کلاس فکر مند تھی انہیں اطلاع ملی تھی کہ زیبا کو سخت بخار ہےمیم نورین کو کافی تشویش ہو رہی تھی زیبا نے میسیج کا جواب بھی نہیں دیا تھا انہوں نے سوچا کہ چھٹی کے بعد اس کے گھر سے ہو کر جائیں گی۔

زیبا کی مما نے میم نورین کو ڈرائنگ روم میں بیٹھایا- "زیبا تو اپنے کمرے میں ہے آپ کچھ کھا پی لیں پھر چلتے ہیں” زیبا کی مما کچن میں جانے لگیں- "آپ تکلف نہ کریں ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی کالج سے لنچ کیا ہے” یہ کہتے میم نورین اٹھ کھڑی ہوئیں۔

زیبا کی مما کو بھی مجبوراً اٹھنا پڑا- زیبا لیٹی ہوئی تھی میم  کو دیکھ کر اٹھنے لگی تو انہوں نے منع کر دیا شفقت سے سر پے ہاتھ رکھا "ہماری سب سے قابل سٹوڈنٹ سے بخار نے کیا لینا تھا-” میم نورین نے مسکراتے ہوے کہا- زیبا نے امی کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا تو وہ سمجھ گئیں اور جوس لینے چلی گئی- میم نورین کے ساتھ کچھ وقت گزار کر زیبا کا دل کافی  ہلکا ہوا تھا- اس کا جی کر رہا تھا کہ میم کے گلے لگ کے خوب روئے اور اپنی بربادی سنائے- اس کی مسلسل خاموشی اور ہاں ہوں کے جواب سے میم نورین نے آخر کآر خود ہی پوچھ لیا کہ کوئی پریشانی تو نہیں- پہلے تو وہ ٹال گئی لیکن ساتھ ہی آنکھیں چھلک پڑیں- میم نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا”شاباش بتاؤ کیا بات ہے؟” زیبا نے بولنا شروع کیا کہ وہ پہلی دفعہ کسی کو اپنا رازدار بنانے لگی تھی۔

  اچھے تعلق کی خوبصورتی کس بات میں ہے؟

میم میرا سب سے بڑا خواب ٹوٹ گیا ہے اب میرا جینے کا جی نہیں کرتا آپ کو پتہ مقصد ہار جانا زندگی ہار جانا ہوتا ہے -محبت ہار جانے سے میں بھی زندگی ہارنے والی ہوں کیوں کہ محبت ہی میرا مقصد حیات تھا۔

پر بیٹا محبت مقصد حیات نہیں ہوتا اور  نہ ہی بنانا چاہیےمیم نے کہا- میم وہ کہتا ہے اسے مجھ سے محبت نہیں ہے-پھر وہ والہانہ پن ہر وقت میری تعریفیں وہ اظہار محبت کیا تھا-ساری رات باتیں وہ بے قراری کیا تھی-وہ مجھے ویسے چھوڑ دیتا  مگر میری محبت کو گالی نہ دیتاتو شاید میری یہ حالت نہ ہوتی- وہ کہتا  ہے کہ بڑی ذہین بنتی ہو ۔ میں تو ویسے ہی چیک کر رہا تھا کہ یہ بھی دوسری لڑکیوں کی طرح پاگل ہے کہ سمجھدار-تم تو بڑی آسانی سے محبت کے جال میں پھنس گئی تھی-میرے لیے موت کا سوال بن چکا اور اس کے لیے سب کھیل تھا- میں جس کو ہلکا سا بخار ہونے پر   اس کی صحت یابی کے لیے نفل پڑھوں اس نے میرا سارا وجود ہی آگ میں جھونک دیا-میرے پاس چاہتوں کا سمندر تھا اور اس کے پاس ایک سچا اقرار بھی نہیں- اگر میں نے بھی اس جیسی محبت کی ہوتی تو آج خوش و خرم ہوتی میرے لیے بھی رستہ مڑنا اپنے وعدوں سے مکرنا آسان ہوتا -جسے میں نے زندگی میں اک اک پل محسوس کیا ہے اس کی ہر پسند کو اپنی پسند بنایا ہےاپنی رگوں میں خون کی مانند شامل کیا ہے آج وہ کہتا اسے مجھ سے محبت نہیں -میں اب مر کر اسے بتاؤں گی کہ محبت ہارنے کا دکھ کیا ہوتا ہے-زیبا یہ سب کہتے روتے جا رہی تھی۔

میم نورین نے گہرا سانس لیا اور نرمی سے سمجھانا شروع کیا۔

ہمیں کسی کے ساتھ بھی ایسا جذباتی تعلق نہیں بنانا چاہیے جو ختم ہونے پر  ہمارا یہ حال کر دے- محبت میں ناکامی کی صورت میں خود کو مار دینا،چپ ہو جانا،خالی چھتوں کو گھورتے رہنے سے بہتر ہے انسان اپنے جذبات کی ڈور اپنے ہاتھ رکھے اگر ایسا نہیں کرے گا تو ہر ایرا غیرا ان جذبات کا سہارا لے کر اذیت پہنچائے گا۔

زیبا نے آنسو صاف کر لیے تھے-میم نورین نے بات جاری رکھی "محبت چار لفظوں کا مجموعہ ہے م سے موت ،ح سے ہلاکت،ب سے بربادی،ت سے تباہی،کوئی بھی ان سے بچ نہیں سکتا کبھی محبوب کی نظریں بدل جاتی ہیں کبھی ذات پات کا ایشو کبھی کچھ غرض یہ کہ محبت ہر انسان کے ساتھ اس کے حالات کے مطابق سلوک کرتی ہے لیکن دکھ سانجا ہوتا ہے -جو بھی حالات ہوں محبت نے آپ کو جس موڑ پر مرضی لا کر کھڑا کر دیا ہو آپ نے جان کی بازی نہیں لگانی- زندگی خدا کی دی ہوئی امانت ہےاسے قربان بھی اس کی راہ میں ہی کرنا چاہیے جسے شہادت کہتےہیں-کسی انسان کے لیے قربان کرنا بہت بڑی بے وقوفی ہے-ہاں انسانوں سے محبت میں آپ اس حد تک ضرور جا سکتے ہیں کہ اپنی انا اور خوشی کوان کے لیے قربان کیا جائے -اگرمحبوب آپ سے محبت نہیں کرتا آپ کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا تو محبت کا تقاضا یہ ہی ہےکہ آپ اسے نظر نہ آئیں-خود کو جو مارتے ہیں ان کی آخرت تو برباد ہوتی ہی  ہےاپنے سے جڑے محبت کرنے والے عزیزوں کو بھی درد میں چھوڑ جاتے ہیں۔

میں مری تو نہیں زندہ لاش ضرور بن گئی ہوں-زیبا پھر رو دی-"وقتی رونا دھونا تو ٹھیک ہے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا لیکن یہ مستقل نہیں ہونا چاہیے-محبت کے نہ ملنے کا دکھ تو بہت ہوتا لیکن یہ دکھ منزل کے رستے کی رکاوٹ نہیں بننا چاہیے-محبت کو کبھی زندگی کا مقصد نہ بننے دو ورنہ امید ٹوٹ جائے گی اور امید کا ٹوٹنا انسان کو توڑ دیتا ہے-ہمارے مقاصد بہت اونچے ہونے چاہیے جن کی جستجو تمام عمر جاری رہنی چاہیے-زندگی چلتے رہنے کا نام ہےہم کیوں رکیں محبت کو رکنا ہےتو رک جائے یہ اس کی کمزوری ہے- لیکن ہم مسلسل چل کرمضبوط ہونے کا ثبوت دیں گے-میرا کہنے کا مطلب یہ ہےکہ اگر آپکو محبت نہیں ملی توبھی آپ کے پاس پر امید رہنے کی ایک وجہ ہے وہ یے آپکا مقصد- محبت کو مقصد بنا لینے کی صورت میں اگر ہم ناکام ہو جائیں گے تو مقصد ہی کھو دیں گے اور مقصد کا کھونا انسان کو توڑ دیتا ہے محبت کا کھونا انسان کو نہیں توڑتا -انسان تب ٹوٹتا ہے جب امید ٹوٹ جائے امید کو کبھی نہ ٹوٹنے ڈو-جب محبت لا حاصل ہو گئی تب بھی میں نے خود کو مایوس نہیں پایا اس کا دکھ تو بہت ہوا پر یہ دکھ میری زندگی کے مقاصد کا راستہ نہیں روک پایا کیوں کہ حاصل کرنے کی جستجو ابھی بھی عروج پے ہے محبت نہ سہی اور بہت کچھ سہی- لیکن یہ محبت سیکھنے کو بہت کچھ دے کر جاتی ہے-اگر محبت میرا نصب العین بن جائے تو میں امید چھوڑ دوں گی لیکن میں ہمیشہ پر امید رہنا چاہتی ہوں اس لیے محبت میری زندگی کا مقصد نہیں- پر امید رہنے سے مراد یہ ہے کہ محبت تو چلی گئی لیکن ابھی بھی زندگی میں بہت کچھ ہونے والا ہے جو شاید محبت سے کہیں زیادہ اہم ہے یہ ہی احساس امید دیتا ہے

  خواتین  کس کی زندگی سے سبق حاصل کریں؟

میم نے دیکھا زیبا کے چہرے کی کیفیت بدلی ہوئی تھی- میم وہ مجھ سے محبت کا دعویدار بن کے دامن چھڑا گیا -جب کوئی اقرار کر کے حسین دنیا کا تصور آنکھوں میں اتار کر ان دیکھی منزل کی سرشاری روح میں اتار کر اپنا ہاتھ چھڑاتا تو بہت دکھ ہوتا- میم نے موقع دیکھا اور تفصیل سے سمجھانا شروع کیا

جس کے نزدیک ہماری  کوئی قدر وقیمت نہ ہو وہ ہماری محبت کے قابل ہی نہیں ہوتا ہمیں جلدی ہی ایسے انسان سے کنارہ کر لینا چاہیے -ایسے لوگ اپنے اوپر کوئی آنچ نہیں آنے دیتے- آپ کو تو اللہ پاک کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جس نے آپ کو زیادہ دیر بھٹکنے نہیں دیا- ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا واپسی کا رستہ باقی ہے- لوٹ آؤ اپنے مقصد حیات کی طرف- آپ نے جو خواب دیکھا تھا کہ میں لفظ لکھتی ہوں تو ساتھ ہی مٹتے جاتے ہیں یہ ہی اس کی تعبیر ہے- محبت آپ کے مقاصد کی دشمن بن گئی ہے-محبت میں ناکامی کے بعد اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینا ہی بہادری ہے۔

زیباکی سوچ کو نیا رخ مل رہا تھا، تبھی میم نے بات جاری رکھی۔

جس نے آپ کی جھولی میں بے وفائی کے پتھر  ڈالے ہیں آپ کے پاس آپشن ہے کہ آپ ان پتھروں  سےاپنا سر پھوڑ لو یا واپس اسی کی طرف پھینک کرنئی زندگی شروع کرو-اس زندگی میں آپ پہلے سے زیادہ سمجھدار اور پر اعتماد واقع ہو سکتی ہو وقت گزرنے کے ساتھ جب دیگر کامیابیاں ملیں گی تو اس فضول حماقت پے ہنسی آئےگی۔

میم نے مسکراتے ہوے ماحول بدلا میم نورین کی بصیرت کام کر گئی تھی- زیبا نے حقیقت پہچان لی تھی-سچائیاں اس کی آنکھوں میں رقص کرنے لگیں بے قراری ختم ہو گئی تھی- اس نے جینے کا راز پا لیا تھا وہ ان چند خوش نصیب انسانوں میں سے تھی جو برباد ہونے کے بعد زمین میں نہیں دھنستے وہ دوبارہ اٹھتے ہیں اور آسمان کی بلندیوں کو چھوتے ہیں-پھر  وہ ان کانٹوں سے اپنا دامن بچا کر چلتے ہیں جنہوں نے پہلی بار ان کی روح کو گھائل کیا ہوتا۔

3.8/5 - (14 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

اہلیہ محمد صدیق

اس تحریر کی مصنفہ ہاؤس وائف ہیں اور اپنے امور ِ خانہ داری کے ساتھ اچھا پڑھنے اور لکھنے کا شوق بھی رکھتی ہیں ۔ مختلف تحریری مقابلہ جات میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ انعامات بھی حاصل کرتی رہتی ہیں۔