رہنمائی

مسلسل ناکام ہونے کی بنیادی وجہ

امتحانات اور مشکلات کے بھنور میں بسا اوقات حالات انتہا درجے تک بگڑ بھی جاتے ہیں، مصیبتیں بڑھ جاتی ہیں، ظلم کے بادل چھٹنے میں اتنی تاخیر ہو جاتی ہے کہ بدگمانیاں، مایوسی اور ناامیدی دل میں گھر کر جاتی ہے۔

شیخ سعدی نے فرمایا تھا کہ مایوسی ایسی دھوپ ہے جو سخت سے سخت وجود کو جلا کر راکھ بنا دیتی ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک مایوسی اس احساس کا نام ہے جو ایک شخص اپنی کسی خواہش کی تسکین نہ ہونے کے طور پر محسوس کرتا ہے کیونکہ خواہش پوری نہ ہونے پر اس کے دل و دماغ میں تلخی کا جو احساس پیدا ہوتا ہے، اسے مایوسی کہتے ہیں۔

ماہرین نے مایوسی کو دو اقسام میں تقسیم کیا ہے۔ ایک وہ جو ہمارے بس سے باہر ہے اور دوسری وہ جو ہمارے اختیار میں ہوتی ہے۔ پہلی قسم میں اگر کسی شخص کی خواہش ہے کہ اس کا بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے، زندگی میں بہت کامیاب و کامران ہو، اگر مختلف وجوہات کی بناء پر اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو پاتی تو یہ اختیار سے باہر والی مایوسی ہوئی ۔ اسی طرح جب ہم فطری حوادث جیسے سیلاب، زلزلہ اور طوفان سے لوگوں کو ہلاک ہوتے دیکھتے ہیں تو اس سے دل میں جو غم، دکھ یا مایوسی پیدا ہوتی ہے، وہ ناقابلِ اختیار ہے۔ خالقِ کائنات نے دنیا کو اس اصول پر تخلیق فرمایا ہے کہ یہاں انسان کی زندگی کامیابیوں اور ناکامیوں کے مابین کشمکش کا شکار ہے، کامیابی پر خوشی کا اظہار تو ہر شخص کر لیتا ہے لیکن تاریخ میں ایسے افراد کم ہی نظر آتے ہیں جو ناکامی کی صورت میں مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے ایک نئے جذبہ کے ساتھ دوبارہ اُٹھ کھڑے ہوں ۔

انسان کی مسلسل ناکام ہونے کی بنیادی وجہ ہی یہی ہوتی ہے کہ وہ ایک غلطی کرنے کے بعد دوسری غلطی کا ارتکاب کرتا ہے۔ ایک ناکامی کے بعد اس کا ازالہ کرنے کی بجائے حزن و ملال میں وقت ضائع کرتا رہتا ہے۔ پریشانی سے نکلنے کے امکانات تلاش کرنے کی بجائے وہ چیخ و پکار کر کے اپنی پریشانی کو مزید بڑھا لیتا ہے ۔ امریکی ماہر نفسیات ڈاکٹر ولیم آرچی کے مطابق: ’’ آدمی سب سے زیادہ جس چیز میں اپنا وقت برباد کرتا ہے، وہ افسوس اور مایوسی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ بیشتر لوگ ماضی کی تلخ یادوں میں گھرے رہتے ہیں، وہ یہ سوچ کر کُڑھتے رہتے ہیں کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو میرا کام جو بگڑ گیا، وہ نہ بگڑتا…… اگر میں نے یہ تدبیر کی ہوتی تو میں نقصان سے بچ جاتا ۔‘‘

  کیریر کے آغاز میں ان اصولوں کو اپنائیں

ہر شخص کی مایوسی کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ اس وجہ کو جان کر، اس سے نجات کی راہ اختیار کر کے ہی انسان ایک مطمئن زندگی کی جانب لوٹ سکتا ہے۔

ناممکن خواہشات رکھنا

مایوسی کی ایک بہت بڑی وجہ ایسی خواہشات ہیں، جن کی تسکین ممکن نہیں ہوتی۔ مایوسی کی اس قسم سے نجات پانے کے لئے ماہرین نے ایک بہت دلچسپ طریقہ تجویز کیا ہے۔ ایک کاغذ اور قلم لے کر اس پر اپنی خواہشات تحریر کریں، خواہشات کی اس فہرست میں نہ پوری ہونے والی خواہشات پر نشان لگائیں، اب نہ پوری ہونے والی خواہشات کا غیر جانب دارانہ تجزیہ کریں کہ وہ مبنی بر حقیقت ہیں یا غیر حقیقی خواہشات ہیں؟ جس شخص کی جتنی زیادہ خواہشات غیر حقیقت پسندانہ ہوں گی، وہ اتنا ہی مایوس ہو گا۔ اس لیے کوشش کر کے ان خواہشات سے نجات حاصل کریں، آپ خود محسوس کریں گے کہ آپ کی مایوسی کی کیفیت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

شدت خواہشات

کسی خواہش کا بہت زیادہ شدید ہونا بھی مایوسی کی وجہ بنتا ہے کیونکہ خواہش جتنی شدید ہوتی ہے، اس کی تسکین سے اتنی ہی خوشی ملتی ہے، لیکن اگر وہ خواہش پوری نہ ہو سکے تو مایوسی بھی اتنی ہی شدید ہوتی ہے۔ مایوسی کی اس قسم کا زیادہ تر شکار خواتین ہوتی ہیں، کیونکہ جذباتی ہونے کی وجہ سے ان میں خواہشات کی شدت بھی زیادہ ہوتی ہے۔

دوسروں سے توقعات وابستہ کرنا

مایوسی کی ایک بڑی وجہ لوگوں سے بے جا توقعات وابستہ کرنا ہے۔ اکثر لوگ اپنے عزیزوں، دوستوں اور جاننے والوں سے بڑی بڑی توقعات وابستہ کرتے ہوئے اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ ہر شخص کے حالات ایسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنے سے متعلق ہر شخص کی توقعات پر پورا اتر سکے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم دوسروں سے بالکل بھی کوئی توقع نہ رکھیں اور ہر معاملے میں اپنے زورِ بازو پر بھروسہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح کرنے سے اگر حقیقی زندگی میں دوستوں، رشتہ داروں کی طرف سے کچھ نہ کچھ مدد ملی بھی تو یہ امر اس کے لیے مایوسی نہیں بلکہ اچانک ملنے والی خوشی کا پیغام لائے گا۔

  یہ کام کر کے اپنی خوبصورت زندگی ضائع مت کریں۔

فکر و عمل میں تضاد

مایوسی کی ایک اور بڑی وجہ سوچ کا جمود اور فکر و عمل کا تضاد ہے۔ سوچ میں جمود اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب انسان تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں اپنے فکر و عمل کا تنقیدی جائزہ لینے کی زحمت نہ کرے، اپنی ہر سوچ اور عمل کو درست سمجھے اور دوسروں کو غلط سمجھے۔ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھ کر، اصلاح کرنے کی بجائے ان کا الزام بھی اوروں کو دے کر اپنی ڈگر پر قائم رہتے ہیں۔ اگر انسان اپنے رویے میں لچک پیدا کرے اور فکرو عمل کے تضاد کو دور کرتے ہوئے محنت کر کے اپنی خامیوں پر قابو پا لے تو کچھ عرصے کی ناکامیوں کے بعد وہ کامیابی حاصل کر ہی لیتا ہے۔ خود کو خامیوں اور غلطیوں سے مبرا سمجھنا چھوڑ دیں، اپنے آپ کو انسان ہونے کا مارجن دیں، انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے، کامیاب وہ ہے جو خامیوں پر قابو پا لے۔

مشکل پڑنے پر واویلا مچانا مایوسی کے مہیب اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے اور صبر کرنا، اللہ کی رضا میں راضی ہونا، مشکل کو آزمائش میںسمجھ کر اللہ کی مدد طلب کرنا انسان کو مایوس نہیں ہونے دیتا۔ مومن واویلا مچا کر، اللہ کی رحمت سے مایوس ہو کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے والا نہیں ہوتا۔ وہ ہر حال میں شکر ادا کرنے والا ہوتا ہے۔ شکر کرنے والی زبان اور دل مایوسی کے غاروں میں کبھی نہیں بھٹکتے کیونکہ شکرگزاری کا وصف تمام مثبت جذبات میں سب سے طاقتور ہے، جدید سائنس نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ انسانی دماغ کے خلیوں پر شکرگزاری کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، شکر گزاری کے جذبات خوشی کے ہارمونز کے اخراج کا باعث بنتے ہیں، اس لیے جو نہیں ملا کا حساب رکھ کر مایوس ہونے کی بجائے، ان نعمتوں کا شمار کریں، جو بن مانگے آپ کو عطا ہوئی ہیں۔خود کو شکرگزاری اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا سکھائیں۔ یہی دو چیزیں ہیں جو آپ کو مایوسی سے نجات دلا سکتی ہیں ۔

5/5 - (1 vote)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔