کردار سازی

ہماری بےچینی کی وجہ ہمارے وعدے ہوتے ہیں

کبھی کبھی انسان کو اپنے وعدوں سے مکرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھی ان کے بوجھ تلے دب کر ساری زندگی گزارنی پڑتی ہے۔اس لیے کوشش کریں کہ کم سے کم وعدے کیا کریں۔ یہ کبھی کبھی گلے بھی پڑ جاتے ہیں۔ہم انسان ہونے کی حیثیت سے دوسروں کو اپنا بنانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ کوئی ہم سے متاثر ہو جائے، کسی کو ہم سے پیار ہو جائے، ہم سب سے منفرد نظر آئیں، ان سب کے پیچھے ہم اپنے آپ کو چھپانے لگتے ہیں۔اصل تو نظر ہی نہیں آتا ۔

جب ہم دوسروں کو متاثر کرنا شروع کرتے ہیں تو ان سے بہت سے عہد کرتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں کریں گے یا ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔ اور جب ہم کسی سے پیار کرتے ہیں یا کسی کو اپنا بنانا ہوتا ہے تب کے وعدوں کا تو نہ پوچھیں۔  تمھاری خاطر جان دے دیں گے ۔ہر کام کریں گے اور تو اور زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ، وغیرہ۔

وہ زندگی جس کے ایک ایک پل کی خبر صرف اور صرف رب کائنات کو ہے ۔ مجھے یا آپ کو نہیں ہے۔ پھر بھی ہم اتنے لمبے لمبے وعدے کر لیتے ہیں اور جب ان وعدوں کو پورا کرنے کی باری آتی ہے تو یقین کریں جس نے بہت وعدے کیے ہوتے ہیں وہی اپنے وعدوں سے مکرتا ہے ۔ اور جو نہیں مکرتا وہ خوار ہوتا ہے۔ یہ زندگی اسے بہت آزماتی ہے ۔اتنا آزماتی ہے کہ انسان کے وجود کو خالی کر دیتی ہے۔

اپنے الفاظ کی اور وعدوں کی بہت حفاظت کریں۔ جب بھی کوئی نیا تعلق بنائیں تو کوشش کریں وعدے کم سے کم ہوں تاکہ آپ کی زندگی آسان رہے۔ قرآن پاک میں اللہ پاک کے بہت سے وعدوں کا ذکر ہے۔ وعدہ صرف وہی سچا ہے جو رب کا بندے کے ساتھ ہے۔ باقی بندہ اس قابل کہاں کہ اپنے وعدوں کو پورا کر سکے۔ 

  گھر بیٹھے اپنا روزگار کرنے کے چند طریقے

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالٰی ہے۔

یاد رکھو کہ اللہ تعالٰی کا وعدہ سچا ہے۔ لیکن بہت سے لوگ علم ہی نہیں رکھتے۔ ( سورہ یونس آیت نمبر 55)

ایک اور جگہ ارشاد باری تعالٰی ہے۔ 

بے شک میرے رب کا وعدہ سچا اور حق ہے۔ ( سورہ کہف آیت نمبر 99) 

ہم نے کبھی سوچا ہے کہ جب ہم کوئی وعدہ کرتے ہیں تو اس کے بارے میں کتنے مخلص ہوتے ہیں۔ جب بھی کسی کی شادی ہوتی ہے نیا تعلق بنتا ہے۔اس تعلق میں کیا کیا وعدے کیے جاتے ہیں لیکن جب نبھانے کی باری آتی ہے تو انسان آٹھ آٹھ آنسو روتا ہے اور بھلا دیتا ہے ان سب وعدوں کو۔ ایسے ہی جب کوئی بچہ دنیا میں آتا ہے تو ماں باپ بچھ بچھ جاتے ہیں اور کتنے ہی وعدے کرتے ہیں خود سے ،بچے پر آنچ نہیں آنے دیں گے، ہر لمحہ اس کے ساتھ رہیں گے ،محبت کریں گے لیکن جیسے ہی آزمائش آتی ہے سب وعدے بھلا دیے جاتے ہیں۔ 

اکثر ہماری بےچینی کی وجہ بھی یہی وعدے ہوتے ہیں جن کو لے کر ہم کتنوں کی دنیا بدل دیتے ہیں، کتنوں کی دنیا خراب کر دیتے ہیں۔ کیا آپ کو علم ہے ان وعدوں کی آپ سے پوچھ ہوگی ۔آپ سے پوچھا جائے گا ان وعدوں کی پاسداری کے متعلق۔ تو کوئی جواب ہے آپ کے پاس۔ نہیں ہے اور ہوگا بھی کیسے۔ آپ نے تو بس زبان سے الفاظ ادا کیے ہوتے ہیں کبھی دل سے سوچ کر بولا ہی نہیں ہوتا کہ جو ہم وعدہ کر رہے ہیں اس کو پورا کرنے میں ہم کتنے مخلص ہیں اور کیا اللہ پاک کی رضا کے لئے کیا ہے ؟

  والدین کیسے اپنے بچوں کو اخلاقیات سکھاتے ہیں

خدارا سوچیں۔ زندگیاں برباد نہ کریں۔ان جھوٹے وعدوں کی آس نا دلائیں کیونکہ جب یہ آس اور وعدے ٹوٹتے ہیں تو دل بند ہو جاتے ہیں۔ دنیا اجڑ جاتی ہے، لوگوں پر سے اعتبار ختم ہو جاتا ہے۔ وعدوں کی جب آخرت میں پوچھ ہو گی تب کیا جواب دیں گے ۔ ہم نے تو اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے بھلا دیے ہیں۔ انسانوں سے کیے گئے وعدوں کی کیا وقعت ہے ۔ رب سے وعدہ لیکر آئے تھے کہ اس کی دنیا میں اسی کے طریقے رائج کر کے زندگی گزاریں گے لیکن آج ہم کہاں کھڑے ہیں کبھی سوچا ہے ۔کبھی کبھی خود کو کٹہرے میں کھڑا کیا کریں تاکہ پتا چلے کہ کتنے پانی میں ہیں۔

لوگوں کو ان وعدوں کی زنجیروں میں نہ جکڑیں جن کو پورا کرنے پر آپ قادر نہیں۔ کوشش کرنے میں لگے رہیں اور وعدوں سے پرہیز کریں۔خود بھی سکون سے رہیں اور دوسروں کو بھی سکون سے رہنے دیں۔

4.3/5 - (6 votes)

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

نوشابہ منیر

اس تحریر کی مصنفہ ہاؤس وائف ہونے کے ساتھ ساتھ لیڈیز موٹیویشنل اسپیکر بھی ہیں۔ اسی حوالے سے وہ لڑکیوں کی آن لائن کونسلنگ کے ذریعے رہنمائی کرتی ہیں۔ چونکہ خود مثبت سوچ و عمل کو پسند کرتے ہوے پر امید رہتی ہیں اسی لیے دوسروں تک بھی یہی پیغام پہچانا چاہتی ہیں۔