رہنمائی

بچوں کو موبائل فون سے دور رکھنے کے لیے عملی تجاویز

سکرین ٹائم جتنا بڑوں کے لیے نقصان دہ ہے اس سے کئی گنا زیادہ بچوں کے لیے نقصان دہ ہے۔بچوں کی نظر کچی ہوتی ہے جب وہ بہت دیر تک سکرین کو دیکھتے ہیں تو نظر بہت جلدی کمزور ہو جاتی ہے۔زیادہ تر والدین کو احساس ہی نہیں کہ ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کا کتنا نقصان کر رہے ہیں۔انکو عملی زندگی میں اپاہج بنا رہے ہیں جن والدین کو احساس ہے وہ بھی بچوں کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔کچھ مائیں کہتی ہیں کہ گھر سے باہر حالات خراب ہیں گھر میں کارٹون دیکھ رہے ہیں تو فکر تو کوئی نہیں بچے محفوظ ہیں۔

یہ کتنی احمقانہ بات ہے کہ ایک نقصان سے بچنے کے لیے دوسرا نقصان کر لیا جائے۔کارٹون بھی آپ بچوں کو سارے دیکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے چند ایک کے سوا سارے کارٹون بچوں کو بدتمیز اور غیر اخلاقی حرکات سکھاتے ہیں۔گیمز کارٹونز سے بھی زیادہ خطرناک ہیں اس کی سو فیصد چھٹی کریں ایک فیصد کی بھی گنجائش نہیں بچوں کو نفسیاتی بنا دیتیں ہیں۔

جن بچوں کو موبائل کی لت لگ چکی ہے۔ انکی یہ عادت کیسے دور کی جائے؟ اس کے لیے میری اپنی آزمودہ چند عملی تجاویز ہیں جن پر میں نے عمل کیا تو میرے بچوں کا سکرین ٹائم کبھی کبھار بھی دس منٹ تک محدود ہو گیا۔انکو ایسی سرگرمیوں میں مشغول کیا جس سے انکے پاس موبائل چلانے کا وقت ہی نہیں بچا۔

ایک سال سے لے کر دس سال تک کے بچوں کے لیے یہ طریقے کارگر ہیں۔

بچوں کو موبائل کے نقصانات بتائیں

میں بچوں کو دو تین ایسی ویڈیوز دکھائیں جو آنکھوں کی بیماریوں کے متعلق تھیں جن لوگوں کی آنکھیں بہت زیادہ خراب تھیں۔پھر انہیں سمجھایا کہ موبائل زیادہ استعمال کرنے سے آنکھیں خراب ہو جاتی ہیں۔اس طرح انکی پیار سے کونسلنگ کی جس کا بہت موثر نتیجہ نکلا۔

خود مثال بنیں

جو آپ کہتے ہیں بچے وہ نہیں کرتے جو آپکو کرتا ہوا دیکھتے ہیں وہ کرتے ہیں۔بچوں کے سامنے موبائل کا استعمال ضروری کالز کے علاوہ نہ کریں ۔میں نے خود آرٹیکل لکھنے ہوں یا کسی مقابلے میں تبصرے کرنے ہوں تو اکثر فجر کے بعد یادن میں جب بچے سوئے ہوں تب کرتی۔ انکو عملی نظر آنا چاہیے کہ ہمارے ماں باپ بھی نظر کی حفاظت کے لیے موبائل کم استعمال کرتے ہیں۔اگر بچے سامنے ہوں تو کسی کام کے لیے موبائل استعمال کرنا پڑے تو کام ختم ہونے پر موبائل کو بیزاری سے رکھتے ہوے کہیں”زیادہ چلانے سے آنکھیں خراب ہوتی ہیں آؤ بچوں کھیلیں”۔اگر آپ ان پر پابندی لگا کر خود سارا دن موبائل سے ہی لگے رہیں گے انکو وقت نہیں دیں گے تو آپکے بچے بھی موبائل نہیں چھوڑیں گے۔بڑھاپے میں انکے پاس بھی آپکے لیے وقت نہیں ہو گا۔

  کامیابی حاصل کرنے کے لیے یہ صلاحیتیں اپنائیں

بچوں کا نظام الاوقات بنائیں

اب تو سکول کھل گئے ہیں بہت سی مائیں چھٹیوں سے اکتا گئی تھیں کہ کب سکول کھلیں اور بچے مصروف ہوں سارا سارا دن موبائل دیکھ رہے ہیں۔ پھر رہے ہیں۔ جب کہ میرے بچوں کے پاس چھٹیوں میں بھی زیادہ کھیلنے کا اور فارغ رہنے کا وقت نہیں بچتا تھا وجہ یہ ہی ہے کہ انکے کھانے کا سونے کا اٹھنے کا کھیلنے کا وقت مقرر کیا ہوا ہے انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اب کھیلنے کا وقت ختم ہو گیا اب کھانا کھا کر پڑھنا ہے پھر سونا ہے کبھی تو وہ خود ٹائم پوچھ رہے ہوتے تھے کہ کھیلنے کے کتنے منٹ رہ گئے ہیں؟

دوستو! آپ بھی اپنی سہولت کے مطابق بچوں کا ٹائم ٹیبل بنائیں۔

بچوں کو دیگر سرگرمیوں میں مشغول رکھیں

بچوں کے پاس جب کرنے کے لیے بہت سارے کام ہوں گے وہ ان سے سیکھیں گے بھی لطف اندوز بھی ہوں گے تو موبائل دیکھنے کا وقت ہی نہیں ملے گا۔لیکن جب والدین نے اپنی جان چھڑانی ہو گی انکو وقت نہیں دینا ہو گا تو پھر وہ موبائل فون میں ہی پناہ ڈھونڈیں گے۔

بچے کے ساتھ ایسے کھیل کھیلیں جن میں جسمانی مشقت ہو جیسے دوڑنا،رسی پھلانگنا، ٹینس ،باسکٹ بال اور فٹ بال وغیرہ۔جب بچہ تھکے گا تو سوئے گا۔

بچے پودے لگا کے بہت خوش ہوتے ہیں ہر بچے کو ایک گملا سدا بہار چھوٹے چھوٹے پھولوں والی بوٹی کا لا کر دیں کہ وہ اس کی حفاظت کرے وقت پر پانی دے۔اس سے بچے خوش بھی ہوں گے اور مصروف بھی۔

لکڑی کے سانچے محتلف پھلوں اور سبزیوں کی شکل میں ملتے ہیں جس سے انکو کاپی پے اتارنا آسان ہو جاتا ہے وہ بچوں کو لا کر دیں بچے ڈرائینگ کرنے میں بہت دلچسپی دکھاتے۔ڈرائینگ کے لیے کاپیاں خریدتے وقت ان کاپیوں کا انتخاب کریں جن میں ایک چیز کلر فل ہو اور اس کے ساتھ ہی اس جیسی سمپل ہو بچہ پہلے والی کے کلر دیکھ کے دوسری میں کرے اس سے زہنی استعداد میں بھی اضافہ ہو گا۔

انبیاء کے واقعات دلچسپ کہانی کی صورت میں سنائیں

جب بچے سکول سے آ کر کھانا کھا کر سوئیں تو تب مائیں اپنا رات کے کھانے کا کام ختم کر لیں عصر کے بعد انکو اٹھا کے کھیلنے کا ٹائم دیں چھت پر لے جا کر اچھے اچھے کھیل کھیلیں بچے بہت خوش ہوں گے مغرب کی نماز کے بعد کھانا کھلا کے عشا تک سکول کا پڑھائیں پھر کہانی سنا کر سلا دیں۔یہ میری اپنی روٹین ہے بچوں کو موبائل کا خیال بھی نہیں آتا انکو کہانی سننے کا اتنا شوق ہوتا یے اصرار کر کے کہتے کہ بس دس منٹ اور سنا دیں آج کل ہمارے گھر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا قصہ شروع ہوا یے بچے اتنا شوق اور دلچسپی دکھا رہے ہیں  دل خوش ہو جاتا ہے۔شروع کرنے سے پہلے پوچھتے ہیں کل کہاں چھوڑا تھا تو چار سال والا بچہ بھی بلکل ٹھیک بتاتا یے تو بہت خوشی ہوتی۔

  کم سرمائے سے کون سا کاروبار شروع کیا جائے

دس سال سے بڑے بچوں کے لیے تجاویز

جن بچوں نے ابتدائی بچھپن موبائل کا بہت زیادہ استعمال کیا ہے انکو عادت ہو گئی یے وہ اب عمر کے اس حصہ میں جب مار بھی کارگر نہیں ہوتی موبائل آسانی سے نہیں چھوڑیں گے۔انکو پیار سے مسلسل سمجھانا ہو گا آہستہ آہستہ کم کرنا ہو گا۔

جہاں ضرورت پڑے سختی بھی کر سکتے ہیں کیوں کہ یہ سال کرئیر بنانے کے لیے اہم ہوتے ہیں پڑھائی کو زیادہ وقت دینا ہوتا جو بچہ گیمز کو دو تین گھنٹے بھی دے دے گا اس کا زیہن پڑھنے کو قبول نہیں کرے گا پہلے ہی تھک جائے گا۔

جو والدین اس دور سے گزر رہے ہیں ان سے دلی ہمدردی ہے تھوڑا قصور انکا بھی ہے جو ابتدا سے ہی کنٹرول نہیں کیا۔خیر محنت سے اب بھی بچے کی عادت چھڑائی جا سکتی ہے اس کا حل صرف پیار ہے مار اور طعنہ زنی سے مکمل پرہیز کرنی ہو گی نہیں تو بچہ باغی بن جائے گا اسے فزیکل کھیلوں میں انوالو کریں لڑکوں میں کرکٹ کا شوق ڈالیں بچیوں کو بیکینگ اور ڈیزائننگ کی طرف لگائیں بچوں کو پڑھائی میں کچھ ٹاسک دیں پورا کرنے پر انعام دیں ایسے ہی آہستہ آہستہ بچہ سکرین کم کر دے گا موبائل چھین لینا دھمکیان دینا کارگر ثابت نہیں ہو گا۔ حوصلے سے کام لینا ہو گا۔

Rate this post

توجہ فرمائیے

 ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ  حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔ 

اہلیہ محمد صدیق

اس تحریر کی مصنفہ ہاؤس وائف ہیں اور اپنے امور ِ خانہ داری کے ساتھ اچھا پڑھنے اور لکھنے کا شوق بھی رکھتی ہیں ۔ مختلف تحریری مقابلہ جات میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ انعامات بھی حاصل کرتی رہتی ہیں۔