ہمارے معاشرے کا ایک اہم اور قابلِ توجہ پہلو یہ ہے کہ ہمارے نوجوان ابتدائی عمر سے لے کر تعلیم مکمل کرنے تک،بلکہ اکثر حالات میں تو نوکری ملنے یا نہ ملنے کی صورت میں بھی والدین پر ہی انحصار کرتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ والدین کا بے جا لاڈ پیار بھی ہو سکتا ہے اور ان کی کم علمی بھی۔
میرا مقصد کسی بھی والدین کی تربیت پر تنقید کرنا یا چیلنج کرنا نہیں بلکہ والدین کو اس بات کا شعور دینا ہے کہ بچے ایک مخصوص عمر تک ہی بچے ہوتے ہی اس لیے خدارا انھیں بالغ اور سمجھدار ہونے دیجیئے۔ چودہ یا پندرہ سال کا بچہ موجودہ دور کے ہر چیلنج کو سمجھتا ہے اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو موجودہ دور کا نمائندہ سمجھتا ہے۔یہ بات لائق ِتحسین ہے مگر بچے کو صحیح سمت بہرحال والدین اور اساتذہ ہی سجھاتے ہیں ۔
اسی حوالے سے میں کچھ ایسی تجاویز پیش کرنا چاہوں گی جس کو اپنا کر والدین اپنے بچوں کو معاشی خود مختاری کی تربیت کر سکتے ہیں۔
بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر سیکھنے کی طرف بھی بچپن سے ہی راغب کریں۔انھیں سمجھائیں کہ کوئی بھی سکل یا ہنر چھوٹا بڑا نہیں ہے بلکہ آپ کے لئیے بہت مفیدہے۔
بچوں کو جنس کےقطع نظر شروع سے ہی سخت محنت کی عادت ڈالیں۔زندگی ہمیشہ ماں کی گود کی طرح شفیق نہیں رہتی اس لیے بچوں کو ہر طرح کے حالات سے نبردآزما ہونا سکھائیں۔
لڑکیوں کو چھوٹی عمر سے ہی سلائی کڑھائی کا ہنر سیکھ لینا چاہیئے تاکہ بوقت ضرورت وہ اسے پیسہ کمانے کے لئیے بھی استعمال کر سکیں ۔اس کے علاوہ آجکل کمپیوٹر کے کورسز کا رجحان اور مانگ بہت ذیادہ ہے تو بچوں اور بچیوں کو کوئی ایسا کمپیوٹر کورس میٹرک کے بعد ہی کروا دیں کہ وہ معاشی جنگ میں کم ازکم اپنی فیس کا بوجھ ہلکا کر سکیں۔
میٹرک کے بعد لڑکے اور لڑکیاں کم پانچ ،دس بچوں کو ٹیوشن ضرور پڑھائیں تاکہ گھریلو اخراجات میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔
لڑکے میٹرک کے بعد،ٹیکنیشن،الیکٹریشن یا اس سے ملتے جلتے کچھ سرٹیفائیڈ کورسز ضرور کریں تاکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں والدین پر بوجھ نہ بنیں۔
ویسے تو آج کل مہنگائی کا زور جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، ہر طبقے کے والدین کے لئیے ہی بچوں کی تعلیم بہت مشکل سے جاری رکھ پاتے ہیں لیکن اگر معاشی مسائل نہ بھی ہوں تو خود کمانے سے بچوں میں والدین کے لئے احساس پیدا ہوتا ہے کہ پیسہ کمانا کس قدر محنت طلب کام ہے۔مزید برآں اس طرح بچوں میں خود کفالت اور خود اعتمادی بھی پروان چڑھتی ہے کہ ہم بھی اپنے والدین اور گھر کے لئیے کچھ بہتر کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں میں اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کا جذبہ اور لگن بیدار ہوتے ہیں ۔ ان میں سرشاری کا جذبہ پنپتا ہے اور ذیادہ محنت کے لئیے مہمیز ملتی ہے ۔اس طرح وہ ابتدائی عمر سے ہی محنت کے عادی ہو جاتے ہیں۔
ایسے بچے اپنے والدین اور معاشرے پر کبھی بوجھ نہیں بنتے بلکہ بہت کارآمد شہری ثابت ہوتے ہیں .انھیں پیسے کی قدر ہوتی ہے اور انھیں محنت میں عظمت کا اصول ہمیشہ کے لئیے ازبر ہو جاتا ہے۔ مزید برآں بچوں میں معاشی خود مختاری انھیں بچپن ہی سے محنت اور خوش حالی کے اٹوٹ سبق بھی پڑھا دیتی ہے۔والدین اگر اپنی اولاد کے درخشاں مستقبل کے خواہاں ہیں تو انھیں چاہیئے کہ آنکھیں کھلی رکھیں اور نظر حال اور مستقبل پر جما کر رکھیں تاکہ زندگی ان کے بچوں کے لئیے آسان رہے
توجہ فرمائیے
ٹیم شاباش کا لکھاری کے خیالات اور تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔اگر آپ کو اس تحریر بارے کوئی شکایت ہو ، کسی بیان کردہ حقائق کی درستگی کرنا چاہتے ہوں تو ٹیم شاباش سےرابطہ کریں۔